مصنوعی ذہانت کی مثبت صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں، ہمیں بس اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرروت ہے۔بہت سے لوگوں کے نزدیک جدید ٹیکنالوجیز خاص طور پر مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں مساوی مواقع، امن اور پائیدار ترقی عام ہو۔ اس امید کی بنیاد ٹیکنالوجیز کی کمپیوٹیشنل طاقت، مسلسل بڑھتا ہوا ڈیٹا اور خود سیکھنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر تعلیم کے شعبے میں یہ ٹیکنالوجیز طلبہ کو انتہائی ذاتی نوعیت کے اور حوصلہ افزا اسباق اور جائزے فراہم کررہی ہیں۔لیکن امکانات ہمیشہ حقیقت کا روپ نہیں دھارتے۔ زیادہ عرصہ پہلے کی بات نہیں ہے کہ جب زیادہ جمہوری اور ترقی یافتہ دنیا بنانے کے لیے سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرنے کے حوالے سے جوش پایا جاتا تھا۔ اب ایسے دعوے بہت کم کیے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا اثر نمایاں طور پر آف لائن دنیا کے مادی، سماجی اور سیاسی حالات پر منحصر ہوتا ہے جس میں یہ کام کرتی ہے۔ نفسیاتی جوڑ توڑ، ایذا رسانی، نگرانی، کمرشلائزیشن، پروپیگنڈا، دنیا میں جو کچھ ہورہا تھا سب سوشل میڈیا کا بھی حصہ بن گیا۔اب سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجیز کی صلاحیتوں کے حصول میں کون سے مادی اور سیاسی آف لائن شرائط رکاوٹ بن سکتی ہیں؟ شاید ان میں سے اہم دولت اور آمدنی میں عدم توازن ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی حالیہ رپورٹ اسے اس دور کے چیلنج کے طور پر بیان کرتی ہے۔ گزشتہ سال 2022 میں 1.2 فیصد امیر ترین افراد کل عالمی دولت کے 47.8 فیصد پر قابض تھے، جبکہ 53 فیصد نچلے طبقے کو صرف 1.1 فیصد دولت تک رسائی حاصل تھی۔اقتصادی عدم مساوات کو سماجی، تعلیمی اور سیاسی عدم مساوات کے طور پر سامنے آتا۔ نتیجتاً جہاں کچھ بچے بہترین اور اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے وہاں کچھ کو بنیادی تعلیم تک بھی رسائی حاصل نہیں ہوگی۔ جب تک ٹیکنالوجی تک رسائی میں فرق کو ختم کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتیں تب تک سب کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے خواب کی تعبیر ممکن ہونے کا امکان بھی کم ہے اور اس دوران تفاوت اور اس کے نتائج میں بھی اضافہ ہوگا۔جدید ٹیکنالوجی کے حامیوں میں بڑی کمرشل کمپنیاں شامل ہیں۔ مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کا ان کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ منافع اور نگرانی کو بڑھایا جاسکے۔ اس نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی و اقتصادی ڈھانچے کوسرمایہ داری کی نگرانی کہتے ہیں۔ممکنہ طور پر منافع کمانے کا یہ مقصد ملازمتوں کو متاثر کرے گا کیونکہ کمپنیاں جان بوجھ کر پالیسی بنا کر انسانوں کو مشینوں سے تبدیل کرنے کی کوشش کریں گی۔ آن لائن اور آف لائن دونوں جہانوں کی اس الجھن کو دیکھتے ہوئے، انسانوں کی بڑی تعداد کے لیے جدید ٹیکنالوجیز کی مثبت صلاحیتوں کا ادراک کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہمیں ٹیکنالوجی کو ایک انسانی نمونے کے طور پر دیکھنا چاہیے جو تاریخی اور ثقافتی تناظر میں کام کرتا ہے۔ یہ معاشرے کی اقدار سے تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں ایک منصفانہ اور ترقی پذیر آف لائن دنیا کی جانب بڑھنے کےلئے تعلیمی، قانونی، معاشی اور سماجی کوششیں کرنی چاہئیں۔تعلیم کے حوالے سے بات کریں تو یہ ضروری ہوگا کہ ٹیکنالوجی میں جدت لاتے ہوئے، سکولوں کو سماجی مہارتوں اور جذباتی تعاون کے ساتھ ایک اچھے طالب علم کی تربیت کے اپنے مقصد کو برقرار رکھنا چاہئے۔ چونکہ ٹیکنالوجی، سائنس اور ریاضی کے تصورات اکثر ایک ساتھ چلتے ہیں، اس لیے ان مضامین میں انسانیت اور فنون کی اہمیت کو بھلا دینا آسان ہے لیکن ایسا کرنا ہماری بھول ہوگی۔خوش قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے غیر تنقیدی جوش و خروش کے خطرات کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ میں سکولوں میں سمارٹ فونز پر پابندی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ اچھا اقدام ہے اور اسے جاری رہنا چاہئے۔( بشکریہ ڈان، تحریر :فرید پنجوانی،ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام