موسمیاتی تبدیلیوں کے طبی اثرات 

آب و ہوا کی تبدیلی کی خطرناک حقیقت یہ ہے کہ اِس سے آبادی کا بڑا حصہ متاثر ہے اور انسانی صحت پر موسموں کے اثرات تشویشناک حد تک زیادہ ہیں‘ جب ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانوں پر اثرات کی بات کرتے ہیں تو اِس سے مردوں کے مقابلے خواتین زیادہ متاثر دکھائی دیتی ہیں۔ سب صحارا افریقہ کے دیہات سے لے کر ایشیا کے خوشحال شہری علاقوں تک‘ خواتین آب و ہوا میں تبدیلیوں کی وجہ سے صحت کے چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہیں‘ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے حالیہ نتائج موسمیاتی تبدیلی اور خواتین کی صحت کے درمیان واضح تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گرمی کی شدید لہر جو گلوبل وارمنگ کےساتھ بڑھتی جا رہی ہے‘ حاملہ ماو¿ں کےلئے خطرہ ہے کیونکہ اِس کی وجہ سے بچوں کی قبل از وقت پیدائش ہوتی ہے اور کم وزن کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاو¿ہ درجہ حرارت اور بارش میں تبدیلی سے ملیریا اور ڈینگی جیسے بخار بھی پھیلتے ہیں جن کا خواتین بالخصوص حاملہ خواتین شکار ہوتی ہیں اور اِس سے حاملہ خواتین کی صحت کے لئے سنگین پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مختلف ترقی پذیر ممالک میں خواتین کندھوں پر اُٹھا کر پینے و دیگر ضروریات کےلئے پانی لاتی ہیں‘ مسلسل خشک سالی اور دستیاب پانی کے وسائل میں کمی کی وجہ سے خواتین کو زیادہ مسافت کا سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ آلودہ پانی پینے سے وہ بیماریوں کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کی وجہ سے گھریلو جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور خواتین کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق‘ آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے یعنی غریب ممالک میں 80 فیصد خواتین شدید موسمی حالات کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ قدرتی آفات کی وجہ سے عالمی سطح پر خواتین کی شرح اموات بھی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر سال دوہزارچار کے سونامی کے دوران انڈونیشیا‘ سری لنکا اور بھارت کے کچھ علاقوں میں ہلاک ہونے والوں میں 77فیصد خواتین تھیں۔ اسی طرح دوہزارآٹھ میں برما میں سمندری طوفان آیا جس کے ہلاک ہونے والوں میں اکسٹھ فیصد خواتین تھیں‘آب و ہوا کی تبدیلی اکثر سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے بھی ہے جس کے باعث لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے۔ اس طرح کی نقل مکانی کی وجہ سے خواتین کا استحصال اور اُن پر ذہنی دباو¿ پڑتا ہے جس سے اُن کی صحت کے مسائل میں اضافے دیکھا جا رہا ہے‘ موسموں کی وجہ سے نقل مکانی بالواسطہ طور پر نمونیا کے خطرے کو بڑھا رہی ہے اور یہاں بھی خطرہ خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لئے زیادہ ہے۔ جب خاندان بھیڑ بھاڑ والی عارضی پناہ گاہوں میں پناہ لیتے ہیں‘ تو ایسی صورت میں نمونیا سمیت سانس کے انفیکشن کا پھیلنا آسان ہو جاتا ہے۔ مزید برآں‘ بہت سے بے گھر خاندان غیرصحت مند ماحول میں گزر بسر کرتے ہیں جس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آلودہ فضا میں انہیں سانس لینا پڑتا ہے۔ یہ عوامل خوراک تک رسائی میں خلل اور صحت کی محدود سہولیات و خدمات تک رسائی کا باعث بنتی ہیں جو ممکنہ غذائی قلت کے ساتھ جڑی ہوئی صورتحال ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے موسمی معمولات بگڑ رہے ہیں جس کا دباو¿ زرعی شعبے پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ سب علاقے جن کی معیشت و معاشرت زراعت پر انحصار کرتی ہے وہاں اشیائے خوردونوش کو اگانے کی صلاحیت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ خاص طور پر اُن علاقوں کے لئے پریشان کن بات ہے جہاں خواتین کھیتی باڑی میں حصہ لیتی ہیں۔ اگر موسموں کی وجہ سے فصلیں خراب ہوں تو اُس سے دیہی علاقوں کی غربت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور کاشتکاروں کی جمع پونجی فصل کے نقصانات کی ادائیگی یا اُن نقصانات کو پورا کرنے میں خرچ ہو جاتی ہے‘ دیہی علاقوں میں حاملہ خواتین کے لئے معاشی مسائل سے نمٹنا زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ انہیں جسمانی ضرورت کے مطابق کافی اور کافی خوراک نہیں ملتی اور وہ غذائی قلت کا شکار رہتی ہیں جس سے نہ صرف یہ کہ اُن کی صحت متاثر رہتی ہے بلکہ پیدائش سے پہلے اور بعد میں اُن کے بچے بھی صحت سے جڑے مسائل کا شکار رہتے ہیں‘ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج کا سامنا ہے‘ حالیہ سیلاب اس کی ایک مثال تھی۔ مسلسل موسلا دھار بارشوں اور اچانک سیلاب نے ہر طرف افراتفری پیدا کردی جس سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور ملک بھر میں ایک ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں جس سے خطے کی سب سے کمزور آبادی متاثر ہوئی‘ سیلاب سے متاثرہ بہت سے علاقوں میں خواتین کو تعلیم سے محروم ہونا پڑا۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلئے آبادی کے شعور اور وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے‘ حالیہ سیلاب سے ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین متاثر ہوئیں جنہیں فوری طبی دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت تھی لیکن پریشان کن حالات میں ایسی کہانیاں سننے کو ملیں جن میں زچہ و بچہ کی زندگیاں علاج معالجے کی خاطرخواہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئیں‘ ان کثیر الجہتی چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے جامع ردعمل کی ضرورت ہے‘ ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کسی بھی پالیسی یا منصوبے کو صنفی زوایئے سے بھی دیکھا جانا چاہئے خواتین کو لاحق خطرات اور اِن کی ضروریات سے متعلق فیصلہ سازی کی سطح غور و خوض ہونا چاہئے۔ پاکستان کی ضرورت صنفی حکمت عملی ہے جس میں موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار و دوچار خواتین کے بارے میں سوچ بچار ہونا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فوزیہ وقار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔