تانبا : مستقبل کا تیل

جدید تیل کی صنعت کا آغاز کرنے والا پہلا ’تیل کا کنواں‘ 1859ءمیں پنسلوانیا میں کھودا گیا تھا۔ تانبے کو ’مستقبل کا تیل‘ یعنی اہم ترین جنس سمجھا جاتا ہے۔ تانبا بجلی کا ایک بہترین کنڈکٹر ہے۔ تانبا حرارت کا ایک شاندار کنڈکٹر ہے۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں‘ سولر پینل‘ ونڈ ٹربائن‘ جیوتھرمل انرجی‘ کریوجینکس‘ روبوٹکس‘ ہائیڈروجن کی پیداوار‘ فائیو جی‘ کوانٹم کمپیوٹنگ‘ ڈرون ٹیکنالوجی‘ بائیو ڈی گریڈایبل بیٹریاں اور انرجی ٹرانسمیشن سسٹم جیسی توانائی کی بچت کرنے والی ٹیکنالوجیز کے لئے تانبا بہت ضروری ہے۔ تانبا انتہائی قابل استعمال ہے اور ری سائیکلنگ کے متعدد چکر کے بعد بھی اپنی خصوصیات برقرار رکھتا ہے جیسا کہ دنیا قابل تجدید (متبادل) توانائی کے ذرائع کی طرف منتقل ہو رہی ہے تو شمسی پینل اور ونڈ ٹربائن کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے تانبے کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے جو مو¿ثر توانائی کی تبدیلی کے لئے تانبے کے اجزا¿ پر انحصار کرتے ہیں۔ انجن والی گاڑیوں سے برقی گاڑیوں کی طرف منتقلی کے لئے برقی موٹرز‘ چارجنگ انفراسٹرکچر اور وائرنگ سسٹم میں تانبے کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیٹا سینٹرز‘ تیز رفتار انٹرنیٹ اور جدید مواصلاتی نظام کا پھیلاو¿ بھی تانبے پر منحصر ہے۔ سمارٹ فونز‘ ٹیبلٹس اور وئرایبل ڈیوائسز بنانے والی صنعتوں کو بھی تانبے کی مستقل اور وافر فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تانبے کی جراثیم کش خصوصیات نے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے لئے بھی اِسے اہم بنایا ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ریکوڈک تانبے (اور سونے) کا بڑا ذخیرہ ہے‘ جس میں قریب چھ ارب ٹن خام لوہے کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور یہ تانبا اعلیٰ معیار کا بھی ہے۔ اس معدنی خزانے سے کم از کم چالیس سال تک کان کنی کی جا سکتی ہے‘ اور اِسے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی اہم اثاثے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پبلک انوسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) سعودی عرب کے خودمختار ویلتھ فنڈ کے طور پر کام کرتا ہے اور عالمی سطح پر اپنی نوعیت کے سب سے اہم فنڈز میں سے ایک ہے۔ اس کے کل اثاثے 776 ارب ڈالر ہیں جو اس کی بے پناہ مالی قد و قامت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ پی آئی ایف اپنے اربوں روپے تین شعبوں میں لگانے پر غور کر رہا ہے۔ ایک صاف توانائی دوسرا ٹیکنالوجی اور تیسرا کھیل۔ سعودی عرب دنیا کی کان کنی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ مادن نامی کمپنی نے سعودی عرب میں کان کنی کی صنعت کا آغاز کیا۔ جنوری دوہزارتیئس میں‘ پی آئی ایف اور مادن نے عالمی سطح پر تانبے‘ لوہے‘ نکل اور لیتھیئم جیسی دھاتوں کی کان کنی میں سرمایہ کاری کے لئے منارا منرلز انویسٹمنٹ کمپنی قائم کی۔ قابل ذکر ہے کہ بیرک گولڈ ماڈن بھی ایک مشترکہ منصوبے میں مصروف ہے۔ جو چیز اِن کے پورٹ فولیو میں دلچسپی کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ یہ ریکوڈک منصوبے میں پچاس فیصد سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مزید سرمایہ کاری کے لئے دس ارب ڈالر مختص کرنے پر رضامند ہیں۔ اس کے علاو¿ہ پی آئی ایف نے ریکوڈک میں اربوں ڈالر کے ایکویٹی شیئر کے حصول میں بھی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق‘ بیرک نے واضح کیا ہے کہ وہ اس منصوبے میں اپنی شراکت داری کم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تاہم وہ پی آئی ایف کی جانب سے حکومت پاکستان کی ملکیت والی ایکویٹی حاصل کرنے کے امکان کی مخالفت بھی نہیں کر رہا۔ تانبے کی طلب میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ صنعتیں اور ممالک اس اہم دھات کے قابل اعتماد ذرائع کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اِس صورتحال میں پاکستان سینکڑوں ارب روپے کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کو بین الاقوامی کان کنی فرموں کے ساتھ فعال طور پر منسلک ہونا چاہئے اور شراکت داری و مشترکہ منصوبوں کو فروغ دینا چاہئے۔ اس تعاون سے تین اہم فوائد حاصل ہوں گے‘ مہارت‘ سرمایہ کاری اور عالمی منڈیوں تک رسائی۔ قابل تجدید (متبادل) توانائی کے دور میں تانبے کی اہمیت ڈھکی چھپی نہیں بلکہ تانبا چمک رہا ہے۔ بجلی اور حرارت کے ٹاپ کنڈکٹر کی حیثیت سے‘ یہ الیکٹرانک وہیکلز (ای ویز)‘ شمسی پینل اور ڈیٹا سنٹرز جیسے توانائی کی بچت کرنے والی ٹیکنالوجی کے لئے اہم و ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ اس کی ری سائیکلیبلٹی اور اینٹی مائکروبیل خصوصیات اِسے زیادہ اہم بنا رہی ہیں۔ ریکوڈک میں تانبے کے وافر ذخائر‘ سعودی عرب کی اسٹریٹجک سرمایہ کاری اور عالمی شراکت داری جیسے پہلو تانبے کے روشن مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس متحرک منظر نامے میں پاکستان کے لئے کان کنی کے ماہرین کے ساتھ شراکت داری‘ سرمایہ کاری اور عالمی مارکیٹ تک رسائی انتہائی اہم و ضروری ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)