ایک سال بعد

سال دوہزاربائیس کے تباہ کن مون سون سیلاب کا ’ایک سال‘ مکمل ہو گیا ہے تاہم سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد اور بحالی کی سرگرمیاں تاحال مکمل نہیں ہوئی ہیں جبکہ نئے مون سون بارشوں کے سلسلے کے بارے میں محکمہ موسمیات نے مزید سیلابوں کی پیشگوئی کر رکھی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ ملک کے نشیبی علاقوں میں لاکھوں لوگوں کو آج بھی بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں ہے کیونکہ بحالی کی کوششوں کے لئے پاکستان نے عالمی سطح پر جس مالی اعانت کا مطالبہ کیا تھا اُسے خاطرخواہ پذیرائی نہیں ملی یہاں تک کہ پاکستان سے مدد کے جو وعدے کئے گئے تھے وہ بھی پورے نہیں کئے گئے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسیف کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اب بھی ایک کروڑ افراد مدد کے منتظر ہیں جن میں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے کہ جنہیں پینے کے صاف پانی اور سر چھپانے کے لئے محفوظ چھت میسر نہیں ہے۔ ہنگامی حالات کی وجہ سے جن متاثرین کو سرکاری عمارتوں بالخصوص تعلیمی اداروں میں ٹھہرایا گیا تھا اُنہیں بھی اپنے تباہ حال علاقوں میں واپس بھیج دیا گیا ہے جہاں ہر طرف پانی کھڑا ہے یا پانی کی وجہ سے زمین دلدلی ہو کر زراعت کے قابل نہیں رہی ہے۔ یونیسیف کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پچاس لاکھ سے زیادہ بچوں کو زندگی بچانے والی غذا کی ضرورت ہے جبکہ ان کی تعلیم کا بھی حرج ہو رہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے بڑے پیمانے پر نقصانات دیکھے گئے جس سے مجموعی طور پر تین کروڑ تیس لاکھ زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور صحت و تعلیم کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یہ توقع کرنا شاید غیر معقول ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کم از کم اپنے طور پر ایک سال کے اندر اس قدر بڑی آبادی کی ضروریات پوری کر سکے گا۔ سیلاب سے متاثرین کی بحالی اور امداد کی کوششوں میں ترقی یافتہ امیر ممالک کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے پاکستان کو اپنے ہاں بھی وسائل کے ضیاع پر بھی غور ہونا چاہئے۔ سیلاب کے بعد اصولاً وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہر قسم کی دعوتوں پر پابندی عائد کر دینی چاہئے تھی جس کی ادائیگی قومی خزانے سے کی جاتی ہے لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان جیسے ممالک میں تیزی سے برفانی تودوں کے پگھلنے اور بے ترتیب موسمی پیٹرن کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ سیلاب متاثرین کی بحالی کی کوششیں اِس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ امیر اور صنعتی ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں مدد کریں جس کے لئے عزم کا فقدان پایا جاتا ہے تاہم اس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اِمدادی کوششیں بڑے پیمانے پر قدرتی آفات سے نمٹنے میں ہمارے اداروں کی سستی اور آب و ہوا سے نمٹنے والے سماجی بنیادی ڈھانچے میں پائی جانے والی کمزوریوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ یہ کافی خطرناک رجحان ہے کیونکہ آب و ہوا کی تبدیلی میں تیزی آ رہی ہے اور آنے والے برسوں میں اس کے اثرات میں شدت کا بھی امکان ہے۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب آنا معمول بن چکا ہے۔ رواں سال بھی شدید بارشوں سے متعدد افراد بشمول بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور دریائے ستلج کے کنارے شدید سیلاب نے ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہماری بنیادی ہائیڈرولوجیکل بنیاد‘ دریائے سندھ پر ہے جس کا زیادہ تر پانی گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے برفانی تودوں کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو رہی ہے اور موسمی بارشیں بے ترتیب ہیں‘ اس لئے بڑے پیمانے پر سیلاب سے نمٹنے کی ریاستی صلاحیت کو فروغ دینا اہم و ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں کو محفوظ طریقے سے نکالنے اور پھر ایک مناسب وقت کے اندر ان سب چیزوں کو دوبارہ تعمیر کرنے یا تبدیل کرنے کے قابل بنانا ہو گا۔ قبل از وقت موسمیاتی انتباہ کا نظام بھی چاہئے۔ آب و ہوا کے لچکدار بنیادی ڈھانچے اور موسمیاتی بحرانوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے بے قاعدہ حالات کی وجہ سے صحت‘ خوراک‘ پناہ گاہ اور تعلیم جیسی ضروری خدمات فراہم کرنے کی صلاحیت متاثر ہے جبکہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کی قومی صلاحیت میں بھی خاطرخواہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صورتحال کا یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں پہلے ہی متوسط اور غریبوں کی اکثریت آباد تھی جو سیلاب کی وجہ سے مزید غریب و محروم ہو گئے ہیں اور اب اُن کے پاس جمع پونجی بھی نہیں رہی! یہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے حل کرنے کے باوجود بھی حل نہیں ہوگا کیونکہ موسمیاتی منفی اثرات مسلسل ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سماجی خدمات کی فراہمی اور اِن خدمات کے معیار کو بہتر بنانا نہ صرف حال بلکہ مستقبل کی ضروریات کے نکتہ¿ نظر سے بھی انتہائی اہم ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رحمان عزیز۔ ترجمہ ابوالحسن امام)