درس و تدریس اور مصنوعی ذہانت

آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت اب مختلف تعلیمی سطحوں پرائمری سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک تدریس‘ سیکھنے اور تحقیق کے عمل کو بڑھانے میں مدد دے رہی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کی قابل ذکر ایپلی کیشنز ذاتی سیکھنے کے تجربات کو آسان بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ’ڈریم باکس‘ جیسے ایڈاپٹو لرننگ پلیٹ فارم تیار کئے گئے ہیں جو ’اے آئی الگورتھم‘ کا استعمال کرتے ہوئے طالب علموں کے منفرد سیکھنے کے انداز اور پیش رفت کے مطابق مواد کو پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈریم باکس ریاضی کے اسباق پیش کرتا ہے جو ہر طالب علم کے جوابات کی بنیاد پر اُس کے لئے ریاضی کی مشکلات کا انتخاب کرتا ہے‘ یہ سافٹ وئر اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ طلبہ کی ذہانت میں اضافہ کرنے کے لئے اُن کی سمجھ بوجھ کے مطابق اسباق اُنہیں دیئے جائیں۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایڈاپٹو لرننگ پلیٹ فارم جیسے ’نوٹن‘ اور ’سمارٹ سپیرو‘ طالب علموں کی کارکردگی کی بنیاد پر مواد تیار کرتے ہیں اور یہ طلبہ کے لئے ذاتی طور پر سیکھنے سکھانے کا عمل ہے۔ یہ پلیٹ فارم طالب علموں کے ردعمل کا بھی تجزیہ کرتا ہے اور بعد کے اسباق تیار کرنے کے لئے پیش رفت کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ طلبہ کو ایسا مواد ملے جو ان کے اندر موجودہ تفہیم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور انہیں مناسب طریقے سے چیلنج کرتا ہے۔خان اکیڈمی نامی ادارے نے بھی ایک سافٹ وئر تیار کیا ہے جو ٹیوشن جیسی خدمات پیش کرتا ہے۔ خبر ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک مقبول تعارفی کوڈنگ کورس اے آئی انسٹرکٹر کے ذریعہ پڑھایا جائے گا کیونکہ یہ انسانی اساتذہ کے استعمال سے کہیں زیادہ سستا اور مو¿ثر ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں اُبھر کر سامنے آنے والی کمپنیوں میں ’کوانٹیفی‘ بھی شامل ہے جو مصنوعی ذہانت کے بل بوتے پر متعدد سیاق و سباق اور ڈومینز میں طالب علموں کی مدد کرتی ہے۔ یہ کورس ورک کا جائزہ لیتی ہے اور رئیل ٹائم فیڈ بیک فراہم کرتی ہیں‘ جس سے سیکھنے کا عمل زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کوئی بھی زبان سیکھنا ماضی کے مقابلے زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی جیسے ادارے چیٹ بوٹس کا استعمال کر رہے ہیں جو طلبہ کو کیمپس میں موجود سہولیات اور وسائل سے آگاہ کرتے ہیں اور کسی بھی شعبے کے سربراہ سے اُن کی ملاقات کے لئے وقت (شیڈول) مقرر کرتے ہیں۔ اس سے طالب علموں کی خود انحصاری اور اُن کی بروقت مدد جیسی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ دو سال میں مصنوعی ذہانت کے نظام کی نئی اشکال سامنے آئی ہیں جنہیں ’جنریٹیو اے آئی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی یہ شکل تخلیقی نوعیت کی ہے جو اصل جیسا مواد تخلیق کرتی ہے جیسا کہ انسان کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے موسیقی سے لے کر بصری آرٹ تک‘ ادب کے اصل ٹکڑے لکھنے سے لے کر نئے سافٹ وئر کوڈ بنانے تک‘ ایسے مواد شامل ہیں جو ہنر مند انسانی ماہرین کی اصلیت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ حال ہی میں تیار کئے گئے دیگر ٹولز میں ’ڈیک ٹوپس‘ شامل ہے جو حیرت انگیز پریزنٹیشنز بنا سکتا ہے۔ ’پیپر ڈائجسٹ‘ سیکنڈوں کے اندر تعلیمی مقالوں کا خلاصہ تیار کرسکتا ہے۔ ’لٹمپس‘ تیزی سے ادب کا جائزہ لے گا۔ ’کوئلبوٹ‘ آپ کے لئے کسی بھی متن کو دوبارہ لکھ سکتا ہے تاکہ اسے بہتر الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ترجمہ کیا جاسکے۔ اوپن اے آئی کی جانب سے جاری کیا گیا ’جی پی ٹی‘ دیگر اے آئی وسائل کی نسبت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اِس کے ذریعے طالب علموں اور محققین کو کافی مدد مل رہی ہے۔ آج کے طلبہ آسانی سے کسی ایک جملے کو لکھ کر تصویر (فوٹوگراف) تخلیق کر سکتے ہیں اور یہ سب اِس قدر حقیقت پسندانہ انداز میں ہوگا کہ مصنوعی تصویر پر حقیقت کا گمان ہوگا۔ مڈجرنی‘ سنتھیسیا‘ گیٹ ہب کو پائلٹ یا یہاں تک کہ موسیقی میوزک ایل ایم سے تبدیل ہو رہی ہے اور مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال کرنے والے ایک عام صارف کی تخلیقات کو تجربہ کار فنکاروں اور پیشہ ور افراد کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ٹولز کے لئے بہت سے پلگ ان سامنے آ گئے ہیں جو آن لائن تخلیقات کو فوری طور پر بدل کر رکھ دیتے ہیں جیسا کہ ’کوڈ انٹرپریٹر‘ ان ٹولز کی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہیں جن کی مدد سے ڈیٹا کا تجزیہ اور تصور کیا جاتا ہے اور اِن کے ذریعے تصاویر کی درستگی اور ویڈیوز ایڈیٹنگ ممکن ہو گئی ہے۔ مصنوعی ذہانت طلبہ کے سیکھنے سکھانے کے عمل اور تجربات کو فروغ دینے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے کردار کی مثال کارنیگی میلن کے ’اوپن لرننگ انیشی ایٹو‘ سے ملتی جلتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے الگورتھم آن لائن سیکھنے کے ماحول میں طالب علموں کے تجزئیات کا مشاہدہ کرتے ہیں تاکہ مشترکہ منصوبوں کے لئے موزوں اور ہم آہنگ گروپ تشکیل دیئے جا سکیں۔ یہ متنوع نقطہ ہائے نظر کو یکجا کرنے کی سہولت دیتے ہیں اور اِن کی مدد سے مسائل کو حل کرنے کی مہارت بڑھتی ہے جس سے سیکھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال امتحانات کے نتائج مرتب کرنے میں ہونا چاہئے۔ اساتذہ طلبہ کی جوابی شیٹس میں دی گئی اسائنمنٹس کی درجہ بندی (گریڈ) کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز کا استعمال کرکے قیمتی وقت بچا سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والے ورچوئل کلاس رومز نے بہت سے تعلیمی اداروں خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تعلیم کی فراہمی کے طریقوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ’کلاس کرافٹ‘ جیسے پلیٹ فارم مصنوعی ذہانت کو مربوط کرتے ہیں تاکہ سیکھنے کا تجربہ زیادہ آسان اور مزیدار بن جائے‘ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرنے سے طالب علموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور تعلیم میں اُن کی دلچسپی اور مصروفیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لیس ورچوئل کلاس رومز طلبہ میں تعلیم سے لگاو¿ پیدا کرتے ہیں جبکہ اساتذہ کا کام آسان ہو جاتا ہے اور اپنا وقت مزید بہتر منصوبہ بندی میں خرچ کر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے وسائل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اِس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اور اِس ذریعے نت نئے خیالات کے بارے میں غوروخوض ہو سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس اے آئی الگورتھم کا استعمال طلبہ کو تعلیمی چیلنجوں یا سکول چھوڑنے کے خطرے کی پیش گوئی کرنے کے لئے کر رہی ہے۔ یہ تعلیمی اعداد و شمار‘ طلبہ کی حاضری اور اُن کی دلچسپی و مصروفیات کے محتاط تجزیے سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس سے اساتذہ کو کسی بھی درجے پر بروقت مداخلت اور تدریسی اہداف حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ٹولز درس و تدریس کو ایک درجہ بلند کر سکتے ہیں لیکن پاکستان کے لئے اصل چیلنج معیاری سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو اعلی ترین قومی ترجیح دینا اور انہیں اعلی ترین بین الاقوامی معیار تک بلند کرنا ہے اور صرف اِسی صورت غربت سے نجات اور بڑھتے ہوئے جرائم جیسے بنیادی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ ابوالحسن امام)