پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات نشیب و فراز کا مجموعہ ہیں۔ سرد جنگ سے لے کر جدید دور کی بدامنی تک‘ دونوں ممالک کے درمیان بنتے بگڑتے تعلقات نے خطے کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی منظر نامے کو بھی متاثر کیا ہے۔ بین الاقوامی سفارتکاری اور عوام کے جذبات کی گونج کے درمیان دفتر خارجہ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے قومی داخلی سیاست میں مبینہ طور پر امریکی ملوث ہونے کا انکشاف کرنے والے ایک پیغام نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو کسی حد تک پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہ واقعہ چاہے حقیقی ہو یا غلط‘ ہمیں ترغیب دے رہا ہے کہ امریکہ پاکستان تعلقات کے کثیر الجہتی سفر پر غور کریں کہ گزشتہ 76 برس دونوں ممالک کے تعلقات پر کیا کچھ اثرانداز ہوا ہے۔ اس کہانی کا آغاز 1947ءمیں ہوا‘ جب صدر ٹرومین کے تہنیتی پیغام میں پاکستان کو خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو غیر معمولی بلندیوں اور مایوس کن نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ابتدائی دہائیوں میں ہم آہنگی تھی جس کی مثال پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا امریکہ میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس پرجوش گلے ملنے سے شراکت داری کا ایک ایسا لائحہ عمل طے ہوا جو سیٹو اور سینٹو جیسے اہم اتحادوں تک پھیلا اور سرد جنگ کے دوران پاکستان کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔اُنیس سو ساٹھ میں روس کے جاسوس طیارے کو مار گرانے کے واقعے نے قابل اعتماد فوجی اتحادی کی حیثیت سے پاکستان کے کردار کو مزید مستحکم کیا۔ دفاعی تعاون کے ساتھ امریکہ کے ساتھ سویلین روابط میں بھی اضافہ ہوا جس کی مثال یو ایس ایڈ پی ایل پروگرام ہے جس نے سبز انقلاب کو فروغ دیا اور پاکستان کو خوراک کی قلت سے نکالا۔چین اور امریکہ کے درمیان تاریخی مفاہمت میں پاکستان نے سہولت کاری کی جو پاکستان کا اہم کردار ہے۔ اس کے باوجود مایوسی کے لمحات جیسا کہ 1971ءکی بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران امریکہ نے غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان پر سوویت حملے کے دوران یہ پیچیدہ مساوات عروج پر پہنچی اور ایک ایسا دور جس نے امریکہ اور پاکستان کی شراکت داری کو مستحکم کرنے کے ساتھ مستقبل کے چیلنجوں کے بیج بھی بوئے۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد امریکہ کی جانب سے خطے کو فراموش کر دیا گیا جس کا نقصان پاکستان کا اُٹھانا پڑا۔ ایف سولہ جنگی لڑاکا طیاروں کی فروخت بند کرنے اور پریسلر ترمیم نے پاک امریکہ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا‘ جس سے پاکستان کے اندر عدم اعتماد کو فروغ ملا۔ اس کے بعد کی دہائیاں سیاسی افراتفری‘ سلامتی کے خطرات اور سماجی ہلچل سے بھری رہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا اور اس کے بعد امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں طالبان کی حکومت آئی۔ جس کے بعد نائن الیون کے المناک واقعات دیکھے گئے۔ ان واقعات کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہوئے۔ 1988ءمیں جنرل ضیاءالحق کے طیارے کے دھماکے نے نہ صرف امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کی جان لے لی بلکہ پاکستان کی پہلی جمہوری طور پر منتخب خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے اُبھرنے کی راہ بھی ہموار کی۔ بینظیر بھٹو نے طویل افغان تنازع کے بعد تازہ ہوا کا سانس لیا اور پاک امریکہ تعلقات میں نئے باب کی نشاندہی کی۔ بینظیر بھٹو کے دور میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ رہے۔ کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سمیت امریکہ کے ان کے متعدد دوروں نے ایک مضبوط شراکت داری قائم کی۔ سرد جنگ کا پردہ گرنے کے ساتھ ہی جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں تبدیلی آئی اور امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا اور اس نے عالمی اتحادوں اور خارجہ پالیسیوں میں تبدیلیوں کا آغاز کیا۔ اُنیس سو چورانوے اور اُنیس سو چھیانوے کے درمیان افغانستان میں طالبان کی کامیابیوں نے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ 1988ءمیں پاکستان اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں نے بین الاقوامی تعلقات کو بدل کر رکھ دیا۔ 1999ءمیں جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان نے ایک اور سنگ میل عبور کیا تاہم یہ گیارہ ستمبر 2001ءکے تباہ کن واقعات تھے جنہوں نے ایک نیا باب رقم کیا۔ مرحوم جنرل مشرف کی یادداشت میں امریکہ کی جانب سے اختیار کئے گئے جبری مو¿قف کا انکشاف ہوا جس میں پاکستان پر تعاون کرنے یا سنگین نتائج کا سامنا کرنے کے لئے دباو¿ ڈالا گیا تھا۔ نیو یارک میں تباہ حال کھنڈرات کے پس منظر میں صدر بش کے واضح الٹی میٹم نے پاکستان کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔ سفارتکاری‘ امداد اور تناو¿ کے ذریعے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی۔ کیری لوگر برمن بل نے پاکستان کے سماجی شعبے کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا‘ جو مفادات اور ذمہ داریوں کے پیچیدہ باہمی تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔ بہرحال افغانستان سے امریکی انخلا نے غیر یقینی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ جس کے بعد پاک امریکہ شراکت داری ختم ہوتی دکھائی دے رہی تھی‘ جس کا نتیجہ علاقائی تنازعات کے بارے میں مختلف خیالات کی صورت میں نکلا۔ جوں جوں جغرافیائی سیاسی توجہ یوکرین پر روس کے حملے کی طرف مبذول ہوئی‘ پچھلی انتظامیہ کے دور میں پاکستان کے نازک توازن کے اقدامات نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا اور اِس کے نتیجے میں رد عمل اور تشریحات کا پیچیدہ جال پیدا ہوا۔ اِن بدلتے ہوئے دھاروں کے درمیان پاکستان کے داخلی سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچ گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد تنازعات نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا۔ ایسے میں جب پاکستان کو عام انتخابات کا سامنا ہے اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپنا کردار بھی ادا کر رہا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ذمہ دار قیادت اس مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی کرے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا پیچیدہ اور نازک جال سرد جنگ کے اتحادوں سے لے کر جدید جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں تک پھیلے ادوار سے گزر چکا ہے۔ مستقبل ابھی تک غیر یقینی ہے لیکن دونوں ممالک کو اپنی مشترکہ تاریخ کی باریکیوں کو سمجھنے اور آگے بڑھنے کا راستہ تیار کرنے کے لئے مشترکات تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر جاوید لغاری۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام