بچوں کے بطور گھریلو ملازمین رکھنے پر پابندی کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور گھریلو ملازمین بچوں کی ہراسانی کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیںاور ہر ایک وقوعے کے بعد زیادہ ہولناک واقعات پیش آتے ہیں جن کی تفصیلات جان کر پورا ملک ہل جاتا ہے۔ بچوں اور خواتین گھریلو ملازمین کے ساتھ اِس طرح کی بدسلوکیاں کوئی نئی بات نہیں اور بار بار ذرائع ابلاغ اِس معاملے کو اٹھاتا بھی ہے جس پر شدید عوامی غم و غصے کا اظہار ہوتا ہے لیکن چند دن بعد حالات معمول پر آ جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک گھرانے میں گھریلو ملازمہ بچے کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ آئی ایل او کے ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میں پچاسی لاکھ گھریلو ملازمین ہیں جن کے پاس متبادل روزگار تلاش کرنے کے لئے بنیادی تعلیم یا ہنر کی کمی ہوتی ہے لہٰذا وہ انتہائی غربت سے بچنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے روزی روٹی کمانے کے لئے آمدنی کے بہ امر مجبوری اِس خطرناک طریقے کا انتخاب کرتے ہیں۔گھریلو کام کو عام طور پر کم اہمیت‘ پوشیدہ اور غیر رسمی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر کارکنوں کا تعلق پسماندہ برادریوں سے ہوتا ہے۔ جبری یا چائلڈ لیبر‘ کام کے حالات‘ ملازمت کی شرائط‘ جائز اجرت سے انکار‘ معائنے کی کمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شمولیت کے حوالے سے وہ ہمیشہ امتیازی سلوک کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان کا آئین واضح طور پر مزدوروں یا گھریلو ملازمین کے حقوق کے حوالے سے متعدد دفعات فراہم کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل گیارہ ہر قسم کی غلامی‘ جبری مشقت‘ ظالمانہ فطرت کی خدمات اور بچوں (چودہ سال سے کم عمر) کو کسی بھی ”فیکٹری یا کان یا کسی دوسری خطرناک ملازمت“ میں مصروف ہونے کی ممانعت کرتا ہے۔ آرٹیکل تیئس ہر شخص کو اس کی جائیداد سے محروم ہونے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ آرٹیکل غلاموں جیسی مزدوری کے نظام کے خلاف ہے جسے ”بندھوا“ مزدوری کہا جاتا ہے اور اِس سے متعلق قانون ’بندھوا مزدوری ایکٹ‘ کے تحت یہ عمل جرم ہے۔ آئین کا آرٹیکل پچیس میں تمام شہریوں کو برابری کا حق حاصل ہے اور کسی کو دوسرے کے ساتھ جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 37(ای) ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ کام کے منصفانہ اور انسانی حالات کو محفوظ بنانے کے لئے اہتمام کرے۔ اس بات کو یقینی بنائے کہ بچوں اور خواتین کو ان کی عمر یا جنس کے مطابق ماحول میں ملازمت نہ دی جائے۔ مزید برآں‘ آرٹیکل 38 (اے) ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ ”آجروں اور ملازمین کے مساوی حقوق“ کے ذریعے لوگوں کی سماجی و معاشی فلاح و بہبود کا تحفظ یقینی بنائے۔ نتیجتاً گھریلو ملازمین‘ خاص طور پر بچوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس پالیسی اصلاحات‘ قانونی اقدامات اور تعمیل کرنے کا ملک گیر احساس پیدا ہوا ہے۔ اس تناظر میں پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ءعالمی اصولوں اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے معاہدوں کی تعمیل کرتے ہوئے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی جانب سے نافذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دارالحکومت اسلام آباد میں رہنے والی گھریلو ملازمین کی ایک بڑی تعداد اور ان کے خلاف بدسلوکی اور بدسلوکی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے پارلیمنٹ نے اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2022ءنافذ کر رکھا ہے جو راقم الحروف نے قومی اسمبلی ایوان میں پیش کیا تھا اور جس کے تحت گھریلو ملازمین کے حقوق کے ساتھ ملازمت کے حالات کو بہتر بنانے اور گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لئے قانونی اور معاہداتی میکانزم تشکیل دیا گیا تھا۔ ایک انتہائی ضروری اقدام کے طور پر‘ راقم الحروف نے ایک اور ایکٹ بھی متعارف کرایا جس میں اسلام آباد میں رہنے والے ہزاروں گھریلو ملازمین کی معاشی اور سماجی وجود کو تسلیم کیا گیا اور انہیں مرکزی دھارے میں لایا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ایکٹ میں پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مذکورہ قانون اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گھر میں ہلکا پھلکا کام کرنے کی اجازت دیتا ہے‘ جس میں گھریلو کام کاج شامل ہے جو جزوقتی نوعیت کا ہے اور جس سے بچے کی صحت‘ حفاظت اور تعلیم کو نقصان پہنچانے کا امکان نہ ہو۔ تیسرا یہ کہ قانون بندھوا مزدوری یا جزوی طور پر جبری مزدوری کے امکانات کو محدود کرتا ہے۔ چہارم آجر اپنی مرضی کے بغیر گھریلو ملازمہ کو اضافی کام تفویض نہیں کر سکتا۔ پانچواں یہ قانون گھریلو ملازمہ کے لئے فوائد کی ضمانت دیتا ہے‘ جس میں نہ صرف کارکن بلکہ اس کے زیر کفالت افراد کے لئے بھی طبی دیکھ بھال شامل ہے۔ چھٹا دیگر فوائد میں ایمپلائز سوشل سکیورٹی آرڈیننس 1965ءکا اطلاق بھی شامل ہے۔ ساتواں مذکورہ ایکٹ کے تحت جب بھی کسی گھریلو ملازمہ کو کام پر رکھنے سے قبل تحریراً اُس کی ملازمت کو تسلیم کیا جائے گا‘ جس میں اس کی ملازمت کی شرائط و ضوابط‘ بشمول کام کی نوعیت اور اجرت کی رقم کو واضح طور پر بیان شامل ہونا چاہئے۔ آٹھویں شق گھریلو ملازمین سے دن میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جائے اور اضافی کام کاج کے اضافی پیسے (اوور ٹائم) دیا جائے گا۔ نویں شق ہفتہ وار کام کے وقت کی حد سے متعلق ہے ۔قوانین اپنی جگہ اہم ہیں اور یہ واضح طور پر جبری مزدوری کی ممانعت کرتے ہیں۔ اس ایکٹ کی دفعہ پانچ (ون) کے مطابق‘ ملازمت کی تفصیل‘ کام کے اوقات‘ مختص تعطیلات اور اُجرت کی شرح کے بارے میں ملازمت کے خط کا فارمیٹ دینا ضروری ہے۔ آجر پر نہ صرف گھریلو ملازمہ کو روزگار کا لیٹر فراہم کرنا لازمی ہے بلکہ قوانین حکومت کو پابند کرتے ہیں کہ وہ آجروں اور تمام متعلقہ افراد کو کم از کم اجرت کی شرح کو عام کرے۔ ان قوانین میں کم از کم چھ ہفتوں کی لازمی زچگی کی چھٹی اور اس وقت کے لئے خواتین گھریلو ملازمین کو اجرت دینے کی اجازت دی گئی ہے۔ مجوزہ قواعد میں گھریلو ملازمہ کی جانب سے برطرفی کے طریقہ کار اور آجروں کی جانب سے تجربہ سرٹیفکیٹ کے لازمی اجرا¿ کا ذکر بھی وضاحت سے کیا گیا ہے۔ قوانین موجود ہیں لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اِن کی موجودگی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو قوانین پر عمل درآمد کرنے کےلئے مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کیونکہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت نہایت ضروری ہے ۔
(مضمون نگار سابق رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مہ ناز اکبر عزیز۔ ترجمہ ابوالحسن امام)