ایسے حالات میں یہ جب پوری دنیا میں کساد بازاری اور معیشتوں کی سستی کا رجحان ہے ، پاکستان کا متاثر ہوئے بغیر رہنا ممکن نہ تھا۔ اس صورت میں نہ صرف پاکستان بلکہ کسی بھی ملک میںکاروبار کرنا آسان نہیں تاہم ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کو آسانیاں فراہم کرنے کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے ۔ حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کو دعوت دی جاتی ہے اور اُنہیں راغب کرنے کے کیلئے اقدامات بھی کئے جاتے ہیں تاہم باوجود اس کے پاکستان میں سرمایہ کاری کبھی بھی آسان نہیں رہی۔ حال ہی میں ایسے بیانات سننے میں آئے ہیں کہ کئی ممالک نے پاکستان نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات لامحدود ہیں لیکن اِن لامحدود امکانات سے صرف اِس لئے استفادہ نہیں ہو پایا جا رہا کیونکہ سرمایہ کاروں کے لئے خاطرخواہ کشش کا سامان موجود نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح کی بڑی سرمایہ کاری سے ملک کی تقدیر یکسر بدل جائے گی۔ جو لوگ بیرونی سرمایہ کاروں کی راہ دیکھ رہے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئےکہ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہوتا جہاں سرمایہ کاری کے امکانات موجود نہ ہوں لہٰذا یہ سمجھنا کہ سرمایہ کار بیتابی سے ایسے ممالک کی تلاش میں ہیں کہ جہاں وہ سرمایہ کاری کر سکیں۔ دوسری اہم بات عوام کی قوت خرید ہے۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں سے پریشان ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کئی کمپنیوں نے یا تو اپنے دفاتر بند کر دیئے ہیں یا پھر اُنہوں نے اپنی پیداوار کم کر دی ہے اور اِس حوالے سے بھی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کرتے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسا سازگار معاشی ماحول بنائے جس میں عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہواور اِس کے بغیر دنیا کا کوئی بھی سرمایہ کار پاکستان کا رخ نہیں کرے گا۔اُنیس سو نوے کی دہائی کے دوران‘ ترکمانستان‘ افغانستان اور پاکستان (تاپی) پائپ لائن منصوبہ بنایا گیا لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ پاکستان کو تاپی سے سستی بجلی مل جاتی تو نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) سے معاہدے نہ کرنے پڑتے۔ مہنگی بجلی‘ کاروبار کرنے کی زیادہ لاگت اور گردشی قرضوں کے طویل سلسلوں کا آخری سرا (اختتام) نظر نہیں آ رہا۔ سال دوہزار تیرہ سے ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ جاری ہے لیکن اِس کے ذریعے بھی حسب وعدہ 32 لاکھ ملازمتیں پیدا نہیں ہوئیں اور اس کی وجہ افرادی قوت کا کم معیار ہے ۔سی پیک سے بہتر انداز میں استفادہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی افرادی قوت کو ہنرمند بنائےں۔ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک کی معیشت دباو¿ میں ہے اور پاکستانی صنعت کاروں کو بہت سی ایسی اشیا درآمد کرنی پڑ رہی جنہیں باآسانی پاکستان کے اندر تیار کیا جاسکتا ہے۔ جب تک ہماری صنعتوں کو ملنے والا خام مال پاکستان کے اندر تیار نہیں ہوگا اُس وقت صنعتی ترقی کا خواب بھی شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس چوری کے مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا ہوگا۔ ٹیکس ادا کرنے میں سستی یا اس سے یکسر پہلو تہی کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔پاکستان کی تعمیر صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شخص کو اِس مقصد کے لئے اپنا اپنا فرض ادا کرنا پڑے گا۔ امن و امان کی صورتحال بھی کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے ۔ اگر چہ ملک میں ماضی کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے تاہم گنے چنے واقعات کا بھی قلع قمع کرنا ہوگا۔دیکھا جائے تو اس وقت معیشت کی بحالی اور استحکام وہ اہداف ہیں جن کا حصول از حد ضروری ہے ۔اولین مرحلے میں تو ملکی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے ، ساتھ افرادی قوت کی مہارت میں اضافہ بھی کرنا ضروری ہے تاکہ سی پیک جیسے منصوبوں سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام