امریکی صدر کے نام کھلا خط

امریکی صدر جو بائیڈن کے نام لکھے گئے ایک طویل کھلے خط کا اختصاریہ ہے کہ ”جناب صدر ‘ ہم آپ کو جی سیون سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے نو سے بیس ستمبر تک بھارت کے دورے کے لئے نیک خواہشات پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ کے میزبان آپ کی موجودگی کو بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لائسنس کے طور پر استعمال نہیں کریں گے۔ سال دوہزاربیس کے دہلی فسادات میں جنونیوں نے 53 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں سے دو تہائی مسلمان تھے حملہ آوروں نے مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش بھی کیا اور اگر مارچ دوہزاربیس کے وسط تک کی بات کی جائے تو تب سے بہت سے مسلمان لاپتہ ہیں۔ اب یہ معمول بنتا جا رہا ہے کہ جب بھی کوئی امریکی صدر بھارت کے دورے کا اعلان کرتا ہے تو بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جسمانی اور سماجی نسل کشی شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کے دورہ بھارت سے چند ہفتے قبل صوبہ ہریانہ کی ’بی جے پی‘ حکومت نے مسلمانوں پر ناقابل تصور مظالم ڈھائے۔ ان غیر انسانی کاروائیوں کو بین الاقوامی میڈیا نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو بائیڈن نامی یہ امریکی صدر ایک مختلف شخص ہے‘ جو انسانی حقوق کا سوال ہونے پر اپنے الفاظ اور عمل میں کبھی کمی نہیں کرے گا۔ بین الاقوامی مبصرین اور تنظیموں کی جانب سے بھی اہم بیانات سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر جینوسائیڈ واچ کے ڈاکٹر اسٹینٹن کا جنوری دوہزاربائیس میں ’کرن تھاپر‘ نے دی وائر کے لئے انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”نسل کشی کے ابتدائی انتباہ کے آثار بھارت میں موجود ہیں۔“ جینوسائیڈ واچ نے ’نسل کشی کے دس مراحل‘ کا حوالہ دیا ہے کہ بھارت میں کئی مراحل پورے ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر سٹینٹن کا کہنا تھا کہ ”صرف اس لئے کہ ایک جمہوری ملک ہے‘ نسل کشی ناممکن نہیں ہے۔“ انہوں نے امریکہ کی اپنی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ غلاموں کی تجارت کے دوران مقامی امریکیوں اور افریقی امریکیوں کے خلاف نسل کشی کی گئی۔ ڈاکٹر سٹینٹن نے کہا کہ ان کا خوف ہے کہ نسل کشی کا باعث بننے والے مراحل‘ جسے وہ ابتدائی اِنتباہ کی علامت کہتے ہیں‘ واقع ہوچکے ہیں۔ نسل کشی کوئی واقعہ نہیں۔ یہ عمل ہے۔ جو بڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹر سٹینٹن نے کہا کہ اگر نسل کشی ہوتی ہے تو اس کا ارتکاب ریاست نہیں کرے گی بلکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے عسکریت پسندوں کے منظم ہجوم کریں گے جبکہ اِس کی قیادت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے بارے میں خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سٹینٹن نے کہا کہ انہوں نے امریکی کانگریس کو بتایا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے سال 2002ءمیں گجرات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ مودی نے اپنی سیاسی بنیاد بنانے کے لئے مسلم مخالف بیانات کا بھی استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ریکارڈ ہے اور انہیں اِس کا جواب دینا ہوگا۔روانڈا میں نسل کشی سے پانچ سال قبل 1989ءمیں ڈاکٹر سٹینٹن نے ملک کے صدر کو خبردار کیا تھا کہ شناختی کارڈ پر نسلی تفریق برقرار رکھنا نسل کشی کا ہتھیار بن جائے گا اور پانچ سال بعد بالکل ایسا ہی ہوا جیسا کہ آپ جانتے ہیں جناب صدر (جو بائیڈن صاحب)‘ اقوام متحدہ کا چارٹر خاص طور پر محکوم آبادی کو حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن بھارت نے چالاکی سے مغرب کو گمراہ کرنے کے لئے قابض افواج کا استعمال کیا ہے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جدوجہد کو دہشت گردی کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ آپ کی طرح انسانی حقوق کے علمبرداروں کا دھیان اصل مسئلے سے ہٹانے کا سب سے آسان طریقہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنے قانونی حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں لہٰذا ان کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی ہیرا پھیری بذات خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے اور جنگی جرائم کے ٹربیونل کے تحت مقدمہ چلانے پر بھارت کو قصوروار ٹھہراتی ہے۔ مزید برآں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے تازہ ترین انکشافات نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح کشمیریوں کو دبانے کے لئے دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے اُور کس طرح بھارتی حکومت نے پاکستان پر فوجی حملہ کرنے کا بہانہ بنا کر فالس فلیگ آپریشن میں اپنے ہی چالیس سے زائد فوجیوں کو ہلاک کیا۔جناب صدر‘ امید ہے کہ بھارت کے جنگی جرائم آپ آگاہ ہوں گے اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے چیمپئن کی حیثیت سے بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا یہ سنگین معاملہ بھارتی قیادت کے سامنے اٹھائیں گے۔ مزید برآں بھارت کو کشمیریوں اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو جنگی جرائم کا معاوضہ بھی ادا کرنا چاہئے اور عالمی فوجداری عدالت کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہئے۔آخر میں ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان اہم خدشات کے بارے میں بھارتی قیادت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لئے اپنی پوزیشن اور اثر و رسوخ کا استعمال کریں۔ پیش کئے گئے ثبوت اور آوازیں جو بولیں وہ صورتحال کی سنگینی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ انصاف اور انسانی حقوق کے تئیں آپ کا غیر متزلزل عزم چیلنجوں سے بھری دنیا میں اُمید کی کرن کا کام کر سکتا ہے۔ضروری ہے کہ اس طرف آپ بھارت میںاپنے قیام کے دوران توجہ دیں (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سید نیر الدین۔ ترجمہ ابوالحسن امام)