پاکستان اور چین کے علاو¿ہ روس سمیت خطے کے ممالک چاہتے ہیں کہ وہ باہمی تجارت کے لئے امریکی ڈالر کی بجائے متبادل ادائیگیوں اور وصولیوں کا نظام وضع کریں اور اِس مقصد کے لئے سب سے اہم پیشرفت ماہ¿ جون کے دوران اُس وقت دیکھی گئی جب پاکستان نے روس سے ایک لاکھ ٹن خام تیل خریدا اور اِس خریداری کے لئے ادائیگی امریکی ڈالرز کی بجائے چین کی کرنسی میں کی گئی۔ پاکستان گزشتہ کئی سال سے چینی درآمدات کی کچھ ادائیگی رین منبی (آر ایم بی) میں کررہا ہے لیکن یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے کسی تیسرے ملک سے تجارت کے لئے ’یوآن‘ کہلانے والی چینی کرنسی کا استعمال کیا۔ یہ پیش رفت اِس لئے بھی اہم ہے کیونکہ پاکستان اپنی بہت سی ضروریات کے لئے چین پر انحصار کر رہا ہے اور اِس انحصار میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے اور اِس پر بین الاقوامی خریداری خصوصاً ایندھن کی خریداری کے لئے ڈالر کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ روسی تیل کی درآمدات کے لئے یوآن کا استعمال ’ہنگامی صورت حال‘ کی نشان دہی کرتا ہے جہاں صرف ایک ماہ کی درآمدات کے لئے ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں لیکن چین کے لئے یہ اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ ڈالر کے مضبوط متبادل کے طور ’آر ایم بی‘ کے عالمی استعمال پر زور دینا چاہتا ہے‘ چند برس سے چین کے ساتھ باہمی تجارت کے لئے ’آر ایم بی‘ کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا امریکی کرنسی پر انحصار کسی حد تک کم ہوا ہے اور ڈالرز میں ادائیگی کے دباو¿ میں بھی کمی آئی ہے۔ چین گزشتہ کئی سال سے پاکستان کا سب سے بڑا شراکت دار اور بیرونی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔پاکستان نے مالی سال دوہزاراکیس میں چین کے ساتھ اپنی کل سالانہ تجارت میں سے کچھ اشیاءاور خدمات کی تجارت چینی کرنسی یوآن میں کی تھی۔ کرنسی سوایپ ارینجمنٹ (سی ایس اے) کے تحت ہونے والی یہ ادائیگی تقریباً تیس ارب یوآن کی تھی۔ اقوام متحدہ کے کومٹریڈ ڈیٹا بیس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سال دوہزاربائیس میں ہونے والی دوطرفہ تجارت تقریباً چھبیس ارب ڈالر تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا ڈالر پر انحصار ایک سال میں ساڑھے چار ارب تک کم ہوا ہے جس کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کے بگڑتے ہوئے بحران کے دوران زرِمبادلہ کے ذخائر پر دباو¿ کم ہوا ہے۔ یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ ڈالر کی قلت کی وجہ سے صرف پاکستان ہی درآمدات کی ادائیگیوں کے لئے ڈالرز سے یوآن پر منتقل نہیں ہورہا بلکہ دیگر ممالک بھی ڈالر کے دباو¿ سے نجات حاصل کرنے کے لئے آر ایم بی کا سہارا لے رہے ہیں جیسا کہ اپریل میں ارجنٹینا نے اعلان کیا کہ وہ اپنے ڈالرز کے کم ہوتے ذخائر کو بچانے کے لئے چینی درآمدات کی ادائیگی یوآن میں کریں گے۔ بلومبرگ نے حال ہی میں کہا کہ ارجنٹینا میں پانچ سو سے زائد کاروباری اداروں نے درآمدات کی ادائیگی یوآن میں کرنے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں قریب تین ارب ڈالرز کے مساوی آر ایم بی میں درآمدات کی باضابطہ اجازت دی گئی ہے۔ مئی کے مقابلے میں جون کے پہلے عشرے میں ارجنٹینا کی کرنسی مارکیٹ میں یوآن میں لین دین ساڑھے اٹھائیس کروڑ ڈالرز تک بڑھ گئی لیکن یوآن کرنسی اختیار کرنے کے پیچھے صرف معاشی دباو¿ یا ڈالرز کی قلت وجوہات نہیں ہیں۔ ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر یوآن کو چن رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روس نے یوکرین تنازع پر مغرب خصوصاً امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں‘ اپنے اثاثے منجمد کئے جانے اور اپنے بینکوں کو سوئفٹ نظام سے نکالے جانے کے بعد یوآن کا استعمال شروع کیا۔پیپلز بینک آف چائنا کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق چین نے گزشتہ سال بیرونی تجارت کی مد میں بیالیس کھرب یوآن (چھ کھرب ڈالرز) کی مساوی لین دین آر ایم بی میں کی۔ سال دوہزارسترہ میں یہی حجم نو کھرب یوآن تھا۔ چین کی اشیاءکی مجموعی تجارت کے حجم میں یوآن کا حصہ تقریباً بیس فیصد جبکہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری میں یہ ستر فیصد ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دنیا ایسے مالیاتی نظام کو آہستہ آہستہ رد کررہی ہے جس میں ڈالر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تاکہ ایک جامع کثیرالجہتی مالیاتی دنیا کی جانب قدم اٹھایا جاسکے جس کی عکاسی ڈالر کے کم ہوتے ذخائر سے بھی ہوتی ہے لیکن یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگا کہ یوآن ڈالر کی جگہ لے لے گا۔ اس کے لئے اہم ہے کہ چین جوکہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر اور دوسرا بڑا امپورٹر ہے اس کے علاو¿ہ دیگر ممالک بھی تجارت کے لئے یوآن میں ادائیگیاں کریں لیکن اِس میں وقت لگے گا لیکن آخر میں ایسا کرنے سے سب سے زیادہ فائدہ چین ہی کو ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ ممالک کی جانب سے یوآن استعمال کئے جانے کا امکان ہے لیکن چینی کرنسی جلد ڈالر کی جگہ لے پائے گی‘ اِس حوالے سے چین کی پالیسی زیادہ جامع نہیں۔ درحقیقت چین ایک ایسے جامع عالمی مالیاتی نظام کی خواہش رکھتا ہے جس میں یوآن‘ ڈالر اور دیگر عالمی کرنسیوں کے ساتھ استعمال ہو۔ مالی استحکام کے حصول کے لئے ڈالر کے بجائے یوآن میں بیرونی ادائیگیاں کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جس کے ساتھ ہی یہ امکان ہے کہ مستقبل میں عالمی ادائیگیوں‘ زرِمبادلہ کے ذخائر‘ سرمایہ کاری اور فنانسنگ کے لئے یوآن کلیدی کردار ادا کرے گا۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ناصر جمال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام