آٹھ نومبر دوہزارسولہ کو بھارت کی حکومت نے پانچ سو اور ایک ہزار روپے مالیت کے کرنسی نوٹوں کو تین اہم مقاصد کے حصول کے لئے غیر قانونی قرار دیا۔ پہلا ہدف یہ تھا کہ کالے دھن پر قابو پایا جائے۔ دوسرا ہدف بدعنوانی کا مقابلہ کرنا تھا اور تیسرا ہدف جعلی کرنسی کے مسئلے سے نمٹنا تھا۔ نوٹ بندی کے فوری بعد بھارت کی جی ڈی پی شرح نمو میں گراوٹ دیکھی گئی‘ جس کی بنیادی وجہ صارفین کے اخراجات میں کمی اور سپلائی چین میں خلل تھا۔ بھارت میں نوٹ بندی کی وجہ سے اچانک اور شدید نقدی کی قلت بھی پیدا ہوئی‘ جس سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں‘ خاص طور پر غیر رسمی شعبے میں‘ جہاں نقد لین دین عام ہے۔ غیر رسمی اقتصادی شعبہ‘ جو نقد لین دین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے‘ کو ملازمتوں کے نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ کاروباری اداروں کو نقدی کے بحران اور کم طلب سے نمٹنا تھا۔ نوٹ بندی سے زراعت اور چھوٹے کاروبار جیسے شعبے جو نقد لین دین پر منحصر ہوتے ہیں‘ بری طرح متاثر ہوئے۔ بھارت کی وسیع غیر رسمی معیشت‘ جو نقدی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے‘ کو بڑا دھچکا لگا کیونکہ لین دین زیادہ مشکل اور مہنگی ہو گئی، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کو اپنے نقد بہاو¿ کا انتظام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ بہت سے ملازمین اور سپلائرز کو وقت پر ادائیگیاں کرنے میں مشکلات رہیں۔ اِس اچانک نوٹ بندی نے افراد اور کاروباری اداروں کے لئے غیر یقینی صورتحال اور مالی دباو¿ پیدا کیا۔ بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر لمبی قطاریں ایک عام منظر بن گئیں۔ عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہیں پرانے کرنسی نوٹوں کو تبدیل کرنے یا اے ٹی ایم سے نقد رقم نکالنے کے لئے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑنے لگا۔ بہت سے لوگوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ حکومت کے ارادوں کے باوجود نوٹ بندی سے کالے دھن پر قابو پانے میں متوقع نتائج برآمد نہیں ہوئے کیونکہ بے حساب دولت کا بڑا حصہ مبینہ طور پر غیر ملکی کرنسیوں میں چلا گیا یا مختلف ذرائع سے بینکوں میں جمع کرایا گیا۔نوٹ بندی بدعنوانی کو عارضی طور پر متاثر کرتی ہے‘ پھر بھی یہ بدعنوانی کی بنیادی وجوہات یعنی کمزور اداروں اور شفافیت کی کمی سے نمٹنے میں ناکام رہتی ہے۔ انسداد بدعنوانی کی جامع اصلاحات کے نفاذ کے بغیر‘ بدعنوانی پھر سے توانا ہو جاتی ہے۔ ایسے معاملوں میں جہاں حکومتیں بدعنوانی کا مو¿ثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہتی ہیں‘ وہاں اکثر اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے سخت اقدام کے طور پر نوٹ بندی کا سہارا لیا جاتا ہے حالانکہ بدعنوانی کا مقابلہ کرنے میں نوٹ بندی کی افادیت کی حمایت کرنے والا کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ہے۔ اس کا مقصد معاشی سرگرمیوں اور رسد میں خلل آتا ہے نہ کہ بدعنوانی کا مقابلہ کیا جائے۔ اس کا مقصد صرف عارضی طور پر بدعنوانی سے نمٹنا نہیں ہے بلکہ اس وسیع مسئلے کا پائیدار اور طویل المدتی حل قائم کرنا ہے۔ بھارت کی جانب سے پانچ سو اُور ایک ہزار روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے دور رس اور بڑے پیمانے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اگرچہ اس کا مقصد کالے دھن کو روکنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا تھا لیکن اس کے فوری بعد معاشی سرگرمیوں‘ خاص طور پر غیر رسمی شعبے میں سنگین خلل پڑا۔ اس کے نتیجے میں بھارت کی جی ڈی پی میں گراوٹ آئی۔ چھوٹے کاروباروں‘ زراعت اور افراد پر اس کا کافی اثر پڑا اور بینکوں اور اے ٹی ایمز کے باہر لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔ اِن رکاوٹوں کے باوجود کالے دھن اور بدعنوانی کو کم کرنے کے مطلوبہ مقاصد توقع کے مطابق پورے نہیں ہو سکے۔ بھارت کے نوٹ بندی کے تجربے سے یہ سبق ملتا ہے کہ بدعنوانی اور بے حساب دولت سے نمٹنے کے لئے مستقل کوششوں‘ جامع اصلاحات اور طویل مدتی حل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے اقدامات کہ جن سے معیشت اور شہریوں کی زندگیاں غیر ضروری طور پر متاثر نہ ہوں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام