زراعت: زمینی حقائق اور اعدادوشمار

زرعی مردم شماری کسی ملک کے زرعی انتظام کی سرگرمیوں‘ فارم میکانائزیشن کی موجودہ صورتحال‘ اوسط فارم سائز مختلف فصلوں کے زیر کاشت رقبے‘ ان کی کاشت اور پیداوار سے متعلق عوامل اور موجودہ آبپاشی کے نظام کے بارے میں معلومات پر مبنی ایک مکمل اور معروضی اعداد و شمار کا مجموعہ ہوتا ہے‘ یہ اعداد و شمار حکومت‘ محکمہ زراعت‘ کسان تنظیموں‘ سرکاری و نجی شعبے کے تجزیہ کاروں اور محققین کو مقامی‘ صوبائی اور وفاقی سطح پر زرعی ترقی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کےلئے سفارشات کا تعین کرنے اور ان سے متعلق فیصلوں کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ جاپان اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک خوراک کی پیداوار بڑھانے اور زرعی طریقوں کو بہتر بنانے کےلئے ہر پانچ سال بعد زرعی مردم شماری کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت نے بھی اب تک گیارہ زرعی اور بیس مال مویشیوں کی مردم شماری کی ہے‘ جس کا ان کی زرعی پالیسی اور ترقی پر واضح اثر دیکھا جا سکتا ہے‘ اس کے برعکس پاکستان میں اب تک صرف چھ زرعی اور تین مال مویشیوں مردم شماری ہوئی ہے‘ آخری زرعی مردم شماری دوہزاردس میں کی گئی تھی اور مویشیوں کی مردم شماری دوہزارچھ میں کی گئی تھی‘ آج نئے اعداد و شمار کی کمی کے نتائج ہماری زرعی ترقی کے تناظر میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں‘ پاکستان اکنامک سروے 2022-23ءمیں زرعی شعبے کی شرح نمو 1.55 فیصد بتائی جا رہی ہے‘ سروے کے دوران بڑی فصلوں کا حصہ منفی 3.20 فیصد رہا‘ اس کی وجہ ربیع کے موسم میں شدید خشک سالی اور خریف کے موسم میں نمایاں سیلاب تھا‘ زراعت کے شعبے میں مثبت نمو جنگلات کے شعبے کی شراکت کا نتیجہ ہے جس نے 3.9 فیصد‘ ماہی گیری کے شعبے نے 1.44فیصد اور لائیو سٹاک کے شعبے نے 3.78 فیصد فیصد ترقی کی۔ یہ اعداد و شمار سوالات اٹھا رہے ہیں‘ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ رواں دہائی کے ریکارڈ اضافے تک پہنچنا کیسے ممکن ہے جب پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے مال مویشیوں کا نمایاں نقصان ریکارڈ کیا گیا تھا؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہر اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ مویشیوں کے بارے میں کی جانےوالی پیشگوئیاں 1996ءاور 2006ءکی مال مویشی مردم شماری پر مبنی ہیں لہٰذا یہ ترقی سترہ سال پرانے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے لگائے گئے تخمینوں کی عکاسی کرتی ہے‘ قدرتی آفات‘ بیماری وغیرہ کے نتیجے میں ہونےوالے کسی بھی نقصان کو نظر انداز کرتی ہے ‘ایک ایسی دنیا میں جہاں مصنوعی ذہانت کو زراعت میں بھی تیز رفتار ترقی کےلئے استعمال کیا جاتا ہے ہم اپنی سالانہ ترقی کا تخمینہ تقریبا دو دہائی پرانے اعداد و شمار کی بنیاد پر لگا رہے ہیں‘ اس سے نہ صرف ملک کی زرعی ترقی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مجموعی نمو کے اعداد و شمار مکمل طور پر درست نہیں ہیں‘ یہ غلط بیانی نئے اعداد و شمار یا مردم شماری کی عدم موجودگی میں بھی جاری رہے گی‘ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن اِس کے پاس زراعت سے متعلق تازہ ترین اعدادوشمار موجود نہیں ہیں‘ جب اعدادوشمار ہی تازہ اور جامع نہیں ہیں تو اِس بات کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ اِن اعداد وشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے جو منصوبہ بندی کی جائےگی وہ درست ہوگی‘ ایک ایسی صورتحال جس میں زراعت کےلئے تقریبا ًتیرہ سال اور مال مویشیوں کےلئے سترہ سال پرانے اعداد وشمار سے کام چلایا جا رہا ہو وہاں انقلابی تبدیلی نہیں آ سکتی‘ سال 2010ءکی مردم شماری کے مطابق 89 فیصد فارموں کے پاس پانچ ہیکٹر سے کم زمین تھی‘ اس کے علاوہ‘ پرانی مردم شماری میں آب و ہوا کی تبدیلی کے مضر اثرات‘ زیادہ لچکدار زراعت کےلئے عملی آب و ہوا کی مطابقت اور حکمت ِعملی اور منصوبوں کو اپنانے کی ممکنہ خامیوں یا اخراجات کی بتدریج تفہیم کے بارے میں معلومات کی کمی ہے‘ اِس پوری صورتحال میں مال مویشیوں کا معاملہ زیادہ تشویش ناک ہے کیونکہ ہم دوہزارچھ کے شماریات سے اخذ تخمینوں کا استعمال کر رہے ہیں‘ لائیو سٹاک سیکٹر کے درست رجحان اور ترقی کی رفتار کے بارے میں غیر یقینی واضح ہے‘ اس شعبے کو اپ گریڈ کرنے کےلئے خصوصی اقدامات کے خاطرخواہ نتائج نہ نکلنے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اُن داخلی و خارجی عوامل کا خاطرخواہ شمار نہیں کیا جا رہا جن کی وجہ سے زرعی شعبہ بالعموم متاثر ہے جیسا کہ سیلاب‘ جانوروں پر مختلف اوقات میں مختلف بیماریوں کے حملے اور اِن کے اثرات کیونکہ بیماریوں سے جانوروں کی تعداد اور پیداوار میں نمایاں طور پر کمی ہوتی ہے‘ حکومت اور پالیسی سازوں کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد زرعی اور لائیو سٹاک مردم شماری کرائیں‘یہ تمام سٹیک ہولڈرز کے مسائل کو حل کرنے کےلئے بہترین حکمت عملی ہو گی اور پائیدار زراعت کی ترقی یقینی بنانے کےلئے جملہ امکانات سے فائدہ اٹھانے میں بھی مدد گار ثابت ہوگی‘ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فیصل علی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)