نواز شریف کی وطن واپسی

مسلم لیگ (نواز) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے اپنے حالیہ انٹرویو میں اِس بات سے اتفاق کیا ہے کہ نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت کو پاکستان واپس آنا چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ہمارے سیاست دان وزارتوں سے الگ ہوتے ہیں تو وہ زمینی حقائق کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے لگتے ہیں لیکن حکومت میں اُن کی کارکردگی عوامی توقعات پر پورا نہیں اُترتی‘ شاید ان کے دیگر پارٹی رہنما بھی خواجہ آصف کے اِس مؤقف سے اتفاق کریں‘جہاں ایک طرف مسلم لیگ (نواز) کی سیاست بے یقینی کا شکار نظر آ رہی ہے تو وہیں دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت ِعلمائے اسلام (فضل الرحمان) نے کم سیاسی مواقعوں کے باوجود اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے البتہ پاکستان تحریک ِانصاف کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہیں کیونکہ وہ اِس وقت اپنی بقاء کی جدوجہد میں مصروف ہے اور مسلم لیگ (نواز) بھی خاطرخواہ فعال نظر نہیں آرہی اور اس کی وجوہات مختلف ہیں۔نواز لیگ کے پاس بطور انتخابی نعرہ ماضی کی صرف ایک ہی چیز ہے یعنی وزیراعظم کے طور پر نواز شریف کا دور جس میں اُن کے مطابق ملک نے ترقی کی تھی‘ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جماعت گزشتہ سولہ ماہ میں اپنی کارکردگی کا بوجھ اپنے سر نہیں لینا چاہتی‘ اگر یہی وہ واحد چیلنج ہے جس کا سامنا نواز لیگ کررہی ہے تو اس کا بھی حل نکالا جاسکتا ہے۔ حل نکالنے کے بجائے جماعت مزید الجھاؤ کا شکار ہورہی ہے‘ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے پارٹی کے دعوؤں اور اعلانات کے باوجود وضاحت اور یقین دہانی کی ضرورت ہے اور اگر نواز شریف وطن واپس آجاتے ہیں تو ان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ نواز شریف کی وطن واپسی نواز لیگ کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف اگلے انتخابات کے لئے انتخابی مہم بہتر ہو گی جو انتہائی ضروری ہے وہیں دوسری جانب کچھ حلقے پراعتماد نظر آرہے ہیں کہ نواز شریف ایک بار پھر پاکستان کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ یہ سرگوشیاں بھی جاری ہیں کہ نواز شریف کے مخالفین کے پاس مقبولیت تو ہے لیکن شاید ان کے پاس قبولیت نہیں ہے۔ اگر ان قیاس آرائیوں میں سچائی ہے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بڑے میاں صاحب تو نہیں لیکن چھوٹے میاں صاحب کی ایک بار پھر وزیراعظم ہاؤس میں واپسی ہوسکتی ہے۔عام لوگوں کے ساتھ شریف خاندان نے بھی یہ افواہیں سنی ہیں جبکہ جاوید لطیف اور آصف کرمانی جیسے رہنما دعویٰ کرتے اور زور دیتے نظر آتے ہیں کہ پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم صرف نواز شریف ہوں گے تاہم ایک بات جو سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ اگر شہباز شریف وزیراعظم بنیں گے تو نواز شریف صرف الیکشن جیتنے اور حکومت ان کے حوالے کرنے کے لئے پاکستان واپس کیوں آئیں گے؟ ان تمام تر معاملات کے ساتھ انتخابات میں کامیابی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ انتخابات جیتنے کے لئے وہ ’مدد‘ کی امید میں ہے لیکن اگر انتخابات ہوجاتے ہیں تو اس مدد کے ذریعے مخلوط حکومت مل سکتی ہے۔ ایک بار پھر یہی سوال درپیش ہے کہ آخر بڑے میاں صاحب کیوں اس معاملے میں دخل اندازی کریں؟ نواز لیگ کو درپیش تیسرا چیلنج یہ ہے کہ پارٹی خود ان لوگوں کے درمیان تقسیم کا شکار ہے جو شہباز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ’مدد‘ ان کے ساتھ رہے اور وہ لوگ جن کا یقین ہے کہ صرف نواز شریف ہی پارٹی اور حکومتی معاملات چلاسکتے ہیں۔ پارٹی میں تقسیم بڑھنے کی صورت میں خاندان میں کیسی خلیج پیدا ہوگی اس بارے میں اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں لیکن نواز لیگ کی پریشانیاں خاندانی مسائل سے بڑھ کر ہیں اور چوتھا چیلنج یہ ہے کہ ماضی قریب پر دوبارہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے‘ نواز لیگ کے قیام سے لیکر اس کے اب تک کے سفر میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ دائیں بازو کی یہ جماعت پنجاب میں پی پی پی کے تسلط کو چیلنج کرنے کے لئے ابھری تھی، اس نے دوہزارآٹھ کے بعد اپنے متعلق خیالات تبدیل کرنے کی کافی کوشش کی۔ یہ واضح ہے کہ مسلم لیگ (نواز) 1997ء کے اپنے دورِ اقتدار کو پسِ پشت ڈالنا چاہتی ہے جس میں ان کی عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ متعدد مواقع پرجھڑپ ہوئی  سال دوہزارنو میں عدلیہ کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ اور معاشرے کے لبرل طبقوں (بالخصوص لاہور میں) کو راغب کرنا ان کوششوں کا آغاز تھا۔ دوہزارتیرہ میں ان کوششوں میں تیزی آنا شروع ہوئی‘ پڑھے لکھے لوگوں کو پارٹی کے چہرے کے طور پر سامنے لایا گیا جبکہ روایتی سیاستدانوں کو بھی قریب رکھا گیا۔ مریم نواز نے پارٹی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا تو اس سے مزید خواتین کو سامنے آنے کا موقع ملا۔  اس طرح کی کوششوں سے انہوں نے بہت سے ایسے لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا جوکہ صرف پی پی پی کو ترقی پسند جماعت کے طور پر دیکھتے تھے اور پھر اہم موڑ تب آیا جب نواز شریف کو برطرف کرکے گھر بھیج دیا گیا 1999ء کی طرح یہ پارٹی کے لئے مشکل وقت تھا جس میں ان کے وفادار رہنماؤں کو الزامات‘ تحقیقات اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کے علاؤہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی حزبِ اختلاف کے طور پر نواز لیگ پر مشکل وقت گزرا۔ یہی سب کچھ تحریک ِعدم اعتماد اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کی بنیاد بنا لیکن اس مختصر عرصے کی حکومت نے نواز لیگ کی ساکھ بہتر کرنے کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ گزشتہ سولہ ماہ کے اقدامات کے بعد اب انسانی حقوق‘ آزادیِ اظہار اور دیگر لبرل اقدار سے متعلق پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت نظروں میں آیا جب وزیر اطلاعات نے عمران ریاض کی گمشدگی سے متعلق سوال کے جواب میں یہ دلیل پیش کہ وہ صحافی نہیں اور جب وزیر داخلہ نے گرفتاریوں اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو درست قرار دیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ میں ایک کے بعد ایک قانون سازی کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ساکھ میں بہتری لانے (جو بعد میں تباہی ثابت ہوئی) کی کوششوں کو ایک اور جہت سے بھی دیکھا جاسکتا ہے سابق گورنر زبیر جیسے پڑھے لکھے رہنماؤں کو نظرانداز کرنا اور اسحاق ڈار کا مفتاح اسمعٰیل کی جگہ لینا وہ اقدامات تھے جن سے پارٹی کے خاندان کے گرد گھومنے کے تاثر کو تقویت ملی‘ اس سے مسلم نواز لیگ نے پہلے خود کو الگ رکھا ہوا تھا۔ نواز لیگ کے کئی حامی مایوس ہوئے بالآخر ایک ایسے ملک میں جہاں نوجوان تبدیلی کی تلاش میں ہیں وہاں نواز لیگ کے کو مشکل کا سامنا ہے‘ بالخصوص شریف برادران کے خیال میں پارٹی اور خاندان کے چیلنجز سے نمٹا جائیگا (بشکریہ ڈان۔ تحریر عارفہ نور۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)