ورلڈکپ سے قبل پاکستان ٹیم کی کارکردگی

ایشیا کپ فائنل کھیلنے کا شاہینوں کا خواب اس وقت چکنا چور ہوگیا جب سری لنکا نے سپر فور کے اہم ترین میچ میں پاکستان کو شکست دیدی جمعرات کے میچ میں مقابلہ تو پاکستان نے خوب کیا لیکن سری لنکا خوش قسمت رہی کہ اسے قسمت کی یاوری سے آخری اوور میں ایسی جگہ چار رنز مل گئے جہاں بلے باز کی محنت سے زیادہ باؤلر کی بدقسمتی ہوتی ہے‘زمان خان جو گزشتہ پی ایس ایل میں ملتان سلطانز کو آخری اوور میں تیرہ رنز  بنانے میں رکاوٹ بنے‘ کل جب سری لنکا کے خلاف آخری اوور کرنے آئے تو سب کی نگاہیں میچ پر تھیں مگر دماغ میں ملتان کے خلاف زمان خان کا وہی اوور تھا‘آخری اوور میں آٹھ رنز درکار تھے اور زمان نے اپنی چوتھی گیند تک صرف دو رنز ہی بننے دیئے لیکن پانچویں اور چھٹی گیند نے فتح کی بازی ہاتھ سے چھین کر لنکنز کو تھمادی‘ شاہین شاہ آفریدی جنہیں ورلڈکپ میں جیت کا معمار کہا جارہا تھا اچانک جانے انہیں کیا ہوا کہ نہ ان کی وہ رفتار رہی اور نہ کٹ،نہ طوفانی باؤنسرز۔ جب سے شاہین آفریدی نے دو فل پچ گیندوں پر روہت شرما اور کے ایل راہول کو دبئی میں آؤٹ کیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی وہ گیند ہے جو ہر ایک کو تہہ تیغ کردے گی۔ وہ بھول گئے کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا ہے یعنی جو روشنی آنکھوں کو چکا چوند کردیتی تھی اب کمپیوٹر کے تجزیہ نے اسے بھی قابل برداشت بنادیا ہے تو ایک فل پچ گیند کا تجزیہ بھلا کیسے بچ جاتا۔ شاہین شاہ نے اگرچہ اپنے آخری اوور میں دو فیصلہ کن وکٹ تو لیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور شکست گھر کی دہلیز تک پہنچ چکی تھی۔پہلے تو پڑوسیوں نے گہری نگاہوں سے پرکھا اور اس گیند کو ناکام بنایا پھر وہی تجربہ لنکن بلے بازوں نے بھی کیا اور کریز سے دو قدم نکل کر کھڑے ہوئے اور شاہین شاہ کی باؤلنگ کو ناکام بنادیا‘ ان کے پہلے اسپیل میں جس طرح اوپنر پریرا کھیل رہے تھے اس سے سری لنکا کے عزائم شروع سے خطرناک لگ رہے تھے۔سری لنکا کے خلاف گرین شرٹس نے جس طرح باؤلنگ کی اس نے یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ اب پاکستان کی باؤلنگ کی دھاک اور طنطنہ ہوا ہوچکا ہے۔اس خراب باؤلنگ کا بوجھ سب سے زیادہ شاداب خان نے اٹھایا‘ شاداب خان نے گزشتہ عرصہ میں جہاں بھی کرکٹ کھیلی بلے باز کی حیثیت سے کھیلی ہے جبکہ باؤلنگ تو وہ بوقت ضرورت کرتے رہے۔ ان کی دوسرے درجہ کی باؤلنگ کے باوجود قومی ٹیم انہیں اہم ترین باؤلر بنانے پر مصر ہے حالانکہ اسامہ میر جیسا گھاگ اسپنر موجود ہے اور شاید کل کے میچ میں وہ کارگر بھی ثابت ہوسکتے تھے۔شاداب خان نے کئی غلطیاں کیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سری لنکن قدرتی طور پر اسکوائر کٹ بہت اچھا کھیلتے ہیں پھر بھی آف اسٹمپ سے باہر باؤلنگ کرتے رہے اور نتیجتاً اپنی اور ٹیم کی بربادی کا باعث بنے‘ بابراعظم نے بھی ان کی پوری مدد کی اور اسکوائر آف دی وکٹ کمزور فیلڈر رکھے‘ ایک ایسا اسپنر جس پر ٹیم انحصار کررہی ہو اور وہ 9 اوورز میں 55 رنز دے تو سمجھ لیجیے کہ آپ اپنے لئے نہیں بلکہ حریف کے لئے کھیل رہے ہیں۔باؤلنگ تو وسیم جونیئر نے بھی مایوس کن کی۔ جس پچ پر ورائٹی کی ضرورت تھی اور بلے بازوں کی ٹائمنگ کو تتر بتر کرنا تھا وہاں وسیم ہر گیند بلے بازکی پہنچ میں کرتے رہے‘کوشال مینڈس اور سدیرا کسی دقت کے بغیر اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر ڈرائیو کرتے رہے۔محمد نواز نے بائیں ہاتھ سے بالنگ کرتے ہوئے بلے بازوں کو قابو میں تو رکھا لیکن افتخار احمد کی غیر کفایتی باؤلنگ کی وجہ سے سب بے قابو ہو گیا‘ زمان خان نئے تھے، پہلا میچ تھا، دباؤ بھی تھا اور گھبراہٹ بھی۔ لیکن پھر بھی وہ بہتر رہے اگر ان کو زیادہ استعمال کیا جاتا تو بہتر ہوتا مگر انہوں نے نو آموز ہونے کی سزا بھگتی۔(بشکریہ ڈان تحریر:سید حیدر‘ترجمہ ابوالحسن امام)