خودانحصاری کے راستے کبھی بھی آسان نہیں ہوتے لیکن آگے بڑھنے اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کا ’راستہ‘ ہے جو ممالک آب و ہوا کی تبدیلیوں اور اِن تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی بھوک (غذائی عدم تحفظ) سے عوام کو بچانا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئے کہ سب سے پہلے آبادی بڑھنے کی شرح میں کمی لائیں‘ متحدہ عرب امارات میں ہوئی حالیہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کئے گئے وعدے ایفا نہیں ہوئے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ فضا میں آلودگی پھیلانے والے ممالک میں 85 فیصد ذمہ دار ہیں لیکن زیادہ خمیازہ دیگر 15 فیصد ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے ‘ اصولاً زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک کو چاہئے کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی نہ صرف مالی و تکنیکی مدد کریں بلکہ مستقبل قریب میں درپیش زیادہ درجہ حرارت اور آب و ہوا کی ہنگامی صورتحال سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں پہلے سے زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچ بچار کی میزبانی کریں‘ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر ترقی پذیر ممالک کو اپنے ہاں ترقی کے عمل کو جاری رکھنا ہے تو اُن کے لئے بھی ضروری ہے کہ مستقبل قریب میں فلاح و بہبود کو جاری رکھنے کے لئے آب و ہوا کی تنزلی کو روکیں۔ آب و ہوا کی موجودہ ہنگامی صورتحال میں گزشتہ چند برس کے دوران ایک اہم سبق یہ سیکھا گیا ہے کہ ہر قدرتی آفت آہستہ آہستہ شروع ہوتی ہے لیکن یہ سب سے پہلے معاشی طور پر کمزور ممالک کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے دنیا بھر میں علاج معالجے کا نظام متاثر ہے۔ جس کی وجہ سے حکومتوں کو صحت عامہ کی دیکھ بھال کے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں ‘ دوسری طرف ایک عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی و غربت کا شکار تھا اُس کے لئے مزید متاثر ہونے کے امکانات و خطرات زیادہ بڑھ گئے ہیں۔پاکستان نے جولائی 2023ءمیں ”نیشنل ایڈیپٹیشن پلان“ تشکیل دیا تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ ترقی‘ منصوبہ بندی‘ آفات کے خطرے سے نمٹنے کے انتظامات کرنے اور ایک ایسا لچکدار نظام وضع کیا جائے جو کسی بھی طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اِس مقصد کے لئے آبپاشی پانی کے ساتھ زرعی ترقی کو بھی اہداف میں شامل گیا گیا‘ طویل عرصے سے زیر التوا ٹھوس اصلاحاتی اقدامات پر عمل درآمد کا آغاز کیا گیا۔ زراعت اب بھی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ زرعی شعبہ کم سے کم چالیس فیصد روزگار (لیبر سپورٹ) فراہم کر رہا ہے‘ زرعی شعبے کی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں حصہ داری بیس فیصد ہے۔ زراعت پاکستان کی ترقی‘ روزگار‘ غربت میں کمی اور غذائی تحفظ جیسے اہم اہداف حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔براعظم ایشیا بلکہ بحرالکاہل کا پورا خطہ بڑھتی ہوئی قلت‘ بھوک‘ غذائی افراط زر کے دباو¿ کا سامنا کر رہا ہے‘ غربت کے دہانے پر رہنے والے زرعی مزدور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باوجود شدید گرمی میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ’ایف اے او‘ کا کہنا ہے کہ سال 2021ءکے دوران براعظم ایشیا میں 41کروڑ 80 لاکھ افراد ’شدید بھوک‘ کا شکار ہوئے جبکہ سال 2020ءمیں 37 کروڑ پچاس لاکھ افراد بھوک کا شکار تھے۔ اِن اعدادوشمار سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اِس پورے خطے کے پاس ماسوائے خود کو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو ڈھالنے کے علاو¿ہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا چالیس فیصد ’غذائی عدم تحفظ‘ کا شکار ہے اور یہ شرح سال 2050ءتک بڑھ کر ساٹھ فیصد تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی بھوک و افلاس کا مقابلہ روایتی طرز حکمرانی سے ممکن نہیں رہا بلکہ اب یہ بات ضروری ہو گئی ہے کہ پائیدار یا خود کفیل مستقبل کا راستہ اپنایا جائے۔ آب و ہوا کی تبدیلی نے شدید موسمی واقعات‘ خشک سالی‘ سیلاب‘ سمندر کی سطح میں اضافہ اور ہیٹ ویو (گرمی کی لہر) کو جنم دیا ہے‘ جس نے زرعی پیداوار‘ زرخیز مٹی کا معیار شدید متاثر ہیں اور فصلوں کی پیداوار میں کمی اور یہ مال مویشیوں کی صحت کی خرابی کا سبب بنا ہوا ہے۔ اِس صورتحال میں زمین‘ پانی اور مزدوری سبھی دباو¿ کا شکار ہیں کیونکہ گندم اور کپاس جیسی اہم فصلوں کی پیداوار کم ہو گئی ہے۔ ماو¿نٹین ٹو ڈیلٹا پلان فار ایڈیپٹیشن میں زراعت کو ترجیح دی گئی ہے کیونکہ خوراک میں اضافہ‘ رینج لینڈز کا انتظام‘ مویشیوں کے ذریعہ معاش پاکستان کے موجودہ معاشی ڈھانچے کا بنیادی حصہ ہے۔ عالمی اور قومی سطح پر اس سیاق و سباق کو وسیع پیمانے پر بھوک کے بحران کے سوا کچھ نہیں کہا جانا چاہئے۔ ایف اے او‘ ڈبلیو ایف پی کی ’ہنگر ہاٹ اسپاٹس 2023ئ‘ نامی رپورٹ میں پاکستان کو کینیا‘ کانگو‘ ایتھوپیا‘ وسطی افریقی جمہوریہ اور شام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے یعنی پاکستان اُن ممالک کی فہرست کا حصہ ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صورتحال ”انتہائی تشویشناک“ ہے۔ رپورٹ میں کی گئی سفارشات میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے موجودہ سماجی تحفظ کے پروگراموں کی صلاحیت میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اِس کے علاو¿ہ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی استعداد کار بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے کیونکہ سال دوہزاربائیس میں آخری موسمیاتی آفت میں پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے۔ پاکستان کو درپیش بحران ’بین العلاقائی‘ نوعیت کا ہے‘ جس سے نمٹنے کا یہی واحد طریقہ ہے کہ حکومتی حکمت عملی اور محکمانہ ضابطوں پر نظرثانی کی جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)