غیر رسمی شعبہ

سرکاری لیبر فورس سروے کے مطابق‘ پاکستان کے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والوں کی تعداد کل آبادی کا تقریباً 75 فیصد ہے۔ یہ شعبہ پاکستان کی آبادی کے ایک اہم حصے کے لئے آمدنی کے مواقع فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت سے نمٹنے میں آسانی ہو رہی ہے۔ مزید برآں‘ یہ خواتین اور نوجوانوں سمیت پسماندہ گروہوں کیلئے پناہ گاہ کے طور پر بھی کام کرتا ہے جنہیں رسمی روزگار کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ملازمتی مواقعوں میں غیر رسمی شعبے کی توسیع نہ صرف آمدنی کی عدم مساوات کم کرنے میں مدد دی ہے بلکہ غربت کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے‘پاکستان میں ملازمت کے غیر رسمی شعبے نے ہمیشہ غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ معاشی بحرانوں اور غیر یقینی کی صورتحال میں‘ یہ بدلتے ہوئے حالات و مطالبات میں کاروائیوں کو تیزی سے ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غیر رسمی شعبے میں اِس لچک سے نہ صرف پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ کمزور افراد اور برادریوں کیلئے ایک حفاظتی حصار بھی قائم ہوتا ہے‘ جس سے انہیں مشکل وقت میں انتہائی ضروری مدد ملتی ہے۔ اِس غیر رسمی شعبے میں چھوٹے کاروبار اور کاروباری افراد کام کرتے ہیں اور یہ غیر رسمی شعبہ ایسے ماحول کو فروغ دیتا ہے جس میں اختراعی خیالات اور انٹرپرینیورشپ پھلتی پھولتی ہے۔ یہ چھوٹے کاروبار معیشت میں ’ریڑھ کی ہڈی‘ کے طور پر کام کرتے ہیں اور معاشی ترقی و جدت طرازی کا مجموعہ ہیں‘ملازمتوں کا یہ غیر رسمی شعبہ جو ان کارکنوں کے لئے حفاظتی حصار فراہم کرتا ہے جن کے پاس رسمی روزگار کے مواقعوں تک رسائی نہیں ہے‘ یہ غیر رسمی شعبہ ہے جو بالواسطہ طور پر سماجی بہبود کے پروگراموں کی طلب کم کرتا ہے اور ممکنہ طور پر عوامی فنڈز کی بچت بھی کرتا ہے۔ غیر رسمی شعبے کو دبانے کے نتیجے میں ملازمتوں میں کمی ہوگی‘ جس سے بے روزگاری اور معاشرتی بدامنی میں اضافہ ہوگا۔ اِس غیر رسمی شعبہ کی وجہ سے آبادی کا ایک اہم حصہ ملازمت اور معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ پیرو میں ’مائیکرو اینڈ سمال انٹرپرائزز کے لئے ٹیکس رجیم‘ پروگرام بنایا گیا جو چھوٹے کاروباروں کیلئے ٹیکس کی شرح میں کمی اور تعمیل کے طریقہ کار کو آسان بناتا ہے یہ حکمت عملی غیر رسمی شعبے کو درپیش رکاوٹوں کے خاتمے اور اُنہیں رسمی بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔قابل ذکر ہے کہ جنوبی افریقہ میں ٹیکس اصلاحات کے ذریعے غیر رسمی شعبے کی مدد کے لئے حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ نے چھوٹے کاروباروں کو مدد اور وسائل فراہم کرنے کے لئے سمال انٹرپرائز ڈیولپمنٹ ایجنسی (ایس ای ڈی اے) اور نیشنل سمال بزنس ایکٹ جیسی اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔ اِسی طرح بھارت نے بھی اپنے وسیع غیر رسمی شعبے کی مدد کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ سال دوہزارسترہ میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) متعارف کرانے کا مقصد ٹیکس نظام کو آسان بنانا اور چھوٹے کاروباروں پر بوجھ کم کرنا تھا۔ مزید برآں‘ ایسے پروگرام موجود ہیں جو مائیکرو اور چھوٹے کاروباری اداروں کے لئے کریڈٹ تک رسائی فراہم کرتے ہیں‘ جس سے انہیں ترقی کرنے اور آہستہ آہستہ اپنے آپریشنز کو باضابطہ بنانے میں مدد ملتی ہے۔ برازیل کا سادہ قومی نظام چھوٹے کاروباروں اور غیر رسمی کاروباری افراد کو آسان اور کم ٹیکس کی شرح ادا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔پاکستان میں غیر رسمی شعبے میں ٹیکس چوری کا خاتمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اگرچہ غیر رسمی شعبہ روایتی انداز میں براہ راست ٹیکس آمدنی میں اضافہ نہیں کرسکتا لیکن یہ اشیاء اور خدمات کی فراہمی کے ذریعہ رسمی معیشت مضبوط بنانے میں بالواسطہ لیکن اہم کردار ادا کرتا ہے جو بعد میں کھپت یا فروخت پر ٹیکسوں سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔ حکومت کو زیادہ منصفانہ حکمت عملی اپنانی چاہئے جو غیر رسمی شعبے کی پرورش‘ ریگولیشنز اور منظم طریقے سے کام کرے۔ اس طرح کا نقطہئ نظر پاکستان کے لئے بہت سے معاشی اور سماجی فوائد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ غیر رسمی شعبہ معیشت کی بنیاد ہے جو انتہائی اہم و ضروری ہے۔ اس کا مقصد صرف ٹیکس وصولی ہی نہیں بلکہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے معاشی ترقی کو فروغ دینا بھی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)