گلوبل بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک فنڈ وینکوور‘ کینیڈا میں حال ہی میں منعقدہ گلوبل انوائرمنٹل فیسیلٹی اسمبلی قائم کی گئی‘ اس فنڈ کا مقصد کنمنگ مونٹریال گلوبل بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک کے نفاذ میں مدد ہے‘ جس کا بنیادی مقصد سال دوہزارتیس تک حیاتیاتی تنوع کے نقصانات کو روکنا اور سال دوہزارپچاس تک فطرت کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ کنمنگ مونٹریال گلوبل بائیو ڈائیورسٹی فریم ورک (جی بی ایف) کو ’سی او پی پندرہ‘ نامی عالمی کانفرنس کے دوران اپنایا گیا۔ کینیڈا اور برطانیہ نے بالترتیب دوسو ملین کینیڈین ڈالر اور دس ملین برطانوی پاو¿نڈ کے ابتدائی عطیات کا اعلان کیا۔ اس فنڈ کا مقصد دوسو تک وسائل سے مالا مال ممالک اور دیگر سرکاری اور نجی وسائل سے سالانہ دوہزارتیس ارب ڈالر جمع کرنا ہے۔کرہ¿ ارض پر حیاتیاتی تنوع کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے اور یہ معدومی کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیلاب‘ جنگلات کی آگ‘ خشک سالی وغیرہ کی شکل میں آب و ہوا کی تبدیلی نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں‘ کیڑوں اور پودوں کے لئے بھی ’وجودی خطرہ‘ ہے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سال دوہزاراُنیس دوہزاربیس میں آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے تین ارب جانور ہلاک یا بے گھر ہوئے۔ اسی طرح دوہزاربائیس میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے زراعت‘ خوراک‘ لائیو سٹاک اور ماہی گیری میں 3.725 ملین ڈالر کا نقصان ہوا جو کل نقصان کا قریب پچیس فیصد ہے۔ پھر بھی پاکستان میں سیلاب کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع کو پہنچنے والے نقصانات کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔حیاتیاتی تنوع کے نقصانات کی دوسری اہم وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وسائل پر زیادہ بوجھ ڈالتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے‘ ممالک شہری اور دیہی علاقوں کو توسیع دیتے ہیں تاکہ رہائشی علاقوں کو ترقی دی جاسکے اور انسانی رہائش اور خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زراعت کے شعبے کو بڑھایا جاسکے۔ یہ عمل جنگلات کے احاطہ کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جنگلات کے احاطہ میں کمی براہ راست حیاتیاتی تنوع میں کمی کے متناسب ہے۔ برطانیہ کی رائل سوسائٹی کے مطابق 1962ءاور 2017ءکے درمیان یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر تین سو چالیس ملین ہیکٹر نئی زرعی زمینیں پیدا کی گئیں اور قدرتی ماحولیاتی نظام کے چارسوستر ملین ہیکٹر‘ چین کے تقریباً نصف رقبے کے مساوی چراگاہوں میں تبدیل کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کا یہ بھی کہنا ہے کہ زراعت حیاتیاتی تنوع کو پہنچنے والے نقصانات کے بنیادی محرکوں میں سے ایک ہے۔ حیاتیاتی تنوع تمام جانداروں کو خوراک اور دیگر غذائی اجزا¿ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ مٹی کی صحت کو برقرار رکھتا ہے اور تجارتی مقاصد کے لئے صحت مند فصلوں اور مویشیوں کی کٹائی کے لئے کافی اجزا¿ کی دستیابی یقینی بناتا ہے۔ حیاتیاتی تنوع کو لاحق کوئی بھی خطرہ کسی قوم کی معاشی سرگرمیوں کو کم کر سکتا ہے اور سیاسی افراتفری پیدا کر سکتا ہے۔ نباتات اور حیوانات کی بہت سی اقسام طبی علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہیں اور دواساز کمپنیوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہیں۔ ان کے معدوم ہونے سے بہت سی مہلک بیماریوں کو روکنے میں ناکامی ہوسکتی ہے اور صحت کے بحران پیدا ہوسکتے ہیں۔ نائٹروجن پودوں اور جانوروں کی صحت کےلئے ایک ضروری جزو ہے۔ حیاتیاتی تنوع سیارے پر زندگی برقرار رکھنے کےلئے قابل استعمال شکل میں نائٹروجن کی منتقلی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فضلے کے سڑنے کے لئے بہت سے جراثیم اہم ہیں۔ ماحولیاتی نظام سے ایسے جانداروں کی غیر موجودگی میں‘ ہمارا سیارہ کچرے کے ڈھیر سے ڈھکا ہوا ہوگا۔ انسانی بستیوں اور خوراک کی پیداوار کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ ہمارے ماحولیاتی نظام کی قدرتی خوراک کی زنجیر کو برقرار رکھنا بھی یکساں اہم ہے۔ ایک صحت مند ماحولیاتی نظام ایک ماحولیاتی نظام میں پودوں اور جانوروں کی مختلف اقسام کے درمیان متوازن تعداد پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ بہت سے جانور اور پودے اس غذائی زنجیر میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر گھاس کو ٹڈی کھاتی ہے۔ ایک ٹڈی کو سانپ کھاتا ہے اور سانپ کو عقاب کھاجاتا ہے۔ اگر سانپ کو اس فوڈ چین سے نکال دیا جائے تو ٹڈیاں وافر مقدار میں پیدا ہوں گی اور زمین کی سطح پر موجود تمام گھاس کھا جائیں گی۔ اسی طرح حیاتیاتی تنوع کا نقصان بہت سی زونوٹک بیماریوں کے پھیلاو¿ کا باعث ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور جنگلات کے رقبے میں کمی کی وجہ سے بہت سے جانوروں کی رہائش گاہ ختم ہو گئی ہیں اور اِس کے نتیجے میں‘ انسانوں اور جانوروں کے مابین رابطہ بڑھ جاتا ہے جو بہت سی زونوٹک بیماریوں کے پھیلاو¿ کا سبب بنتا ہے۔ بہت سے وائرس جیسے منکی پوکس‘ کورونا‘ ایبولا اور ڈینگی زونوٹک ہیں۔ حیاتیاتی تنوع فنڈ کا قیام ہمارے ماحولیاتی نظام کی بقا اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک اہم قدم ہے۔ تاہم اس فنڈ کی حقیقی کامیابی اور مستقبل کا انحصار سال دوہزارتیس تک فنڈنگ اُور اِس فنڈنگ کے مو¿ثر استعمال پر منحصر ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام