جنوبی ایشیا کے وسط میں واقع پاکستان کی زرخیز زمینیں ’زرعی معیشت‘ ہے جو نہ صرف ملک کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) کا چوبیس فیصد فراہم کرتی ہے بلکہ یہی زرعی شعبہ ملک کی آدھی آبادی کے لئے ’لیبر فورس‘ کا ذریعہ بھی ہے اور زراعت ہی پاکستان کی نصف آبادی کا ذریعہ معاش ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان گندم‘ کپاس‘ گنے اور چاول جیسی اہم فصلیں پیدا کرنے والے دنیا کے دس سرفہرست ممالک میں شامل ہے لیکن غیرمعمولی زرعی طاقت و صلاحیت کے باوجود پاکستان خشک سالی‘ قحط اور غذائی عدم تحفظ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں دنیا کے 121 ممالک میں پاکستان 99ویں نمبر پر ہے۔ یہ فہرست (انڈکس) سال 2022ءمیں جاری ہوئی تھی جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ بیس فیصد پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ تقریبا ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن نے سال 2023ءسے متعلق ’ہنگر ہاٹ سپاٹس‘ نامی رپورٹ میں پاکستان میں غذائی تحفظ سے متعلق صورتحال کو
’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ خطرے والا ملک ہے۔ بدلتے ہوئے موسمی پیٹرن‘ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت‘ بے ترتیب مون سون اور برفانی تودوں ©(گلیشیئرز) کے پگھلنے سے آب و ہوا تبدیل ہوئی ہے اور یہ سبھی واقعات موسمیاتی تبدیلیوں کے واضح نشانات ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا‘ سال دو ہزار بائیس کے تباہ کن سیلاب نے تین کروڑ اَسی لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو متاثر کیا۔ تین کروڑ ایکڑ فصلیں تباہ ہوئیں اور مجموعی طور پر سیلاب سے تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ توجہ طلب ہے کہ مذکورہ سیلاب صرف پانی کا بہاو¿ نہیں تھا بلکہ اِس نے غذائی عدم تحفظ کی صورتحال پیدا کر دی ہے اور ’بھوک و افلاس‘ خاموشی سے حملہ آور ہوئی کیونکہ سیلاب سے انتہائی متاثرہ علاقوں میں رہنے والوں سے ان کی روزی روٹی چھن گئی ہے۔ ریکارڈ توڑ سیلاب کسی بھی ملک کو تباہ کر سکتا ہے جیسا کہ پاکستان کے ساتھ ہوا۔ اندیشہ ہے کہ سال دو ہزار چالیس تک‘ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے زرعی پیداوار میں آٹھ سے دس فیصد کمی آسکتی ہے‘ جس سے آمدنی اور غذائی تحفظ کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اس صدی کے اختتام تک درجہ حرارت میں پانچ ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی صورت میں ایشیا کو گندم کے پچاس فیصد نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے پاکستان خاص طور پر خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ زراعت کی بنیاد ’بیج‘ ہوتا ہے‘ اعلیٰ معیار کے بیجوں کی دستیابی ملک میں غذائی تحفظ کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا سیڈ ایکٹ 1976ئ‘ بیج کی صنعت کو ریگولیٹ کرنے والا بنیادی قانون ہے‘ اِس کے علاوہ بیج (ترمیمی) ایکٹ 2015ءاور پلانٹ بریڈرز رائٹس ایکٹ 2016ءکے ذریعے قانون کو جامع بنایا گیا ہے لیکن یہ ترامیم عدم استحکام کا باعث بھی ہیں کیونکہ قانون تو موجود ہے لیکن قانونی شقوں کو نافذ کرنے کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ریگولیٹری وضاحت دونوں کا فقدان ہے۔ دوسری اہم
بات یہ ہے کہ زراعت سے متعلق قانون سازی میں کاشتکار شریک نہیں ہیں اور اِس میں چھوٹے پیمانے پر اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا بالخصوص خواتین کسان ورکروں کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں ہوئی۔ جب ہم تصدیق شدہ بیج کی بات کرتے ہیں تو یہ بات گندم‘ چاول اور کپاس جیسی بڑی فصلوں تک محدود ہوتی ہے اور اِس میں چھوٹی فصلوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم جس نے صوبوں کو زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پر زیادہ خود مختاری دی تھی‘ وفاقی مداخلت اور اثر و رسوخ جیسی پیچیدہ تقسیم کی وجہ سے کمزور ہو گئی ہے۔ یہ الجھن زرعی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جس سے پالیسی ابہام میں اضافہ ہوا ہے اور زرعی منڈی میں ضروری پیش رفت میں بھی رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان کی زراعت کے منصفانہ‘ پائیدار اور جامع مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کے زرعی فریم ورک میں جامع اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنے زرعی طریقوں کو تبدیل کرنے کے لئے انقلابی (جرا¿ت مندانہ) اقدامات کرنا ہوں گے۔ غذائی تحفظ صرف آج کی ضروریات کے لئے نہیں بلکہ مستقبل کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔
تحریر مریم سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)