اقتصادیات اور بنیاد پرستی

گہرے معاشی اور مالی بحران کے درمیان نیو لبرل دنیا کے پنڈت ایک بار پھر تباہی کا نسخہ پیش کر رہے ہیں‘اِس صورتحال میں حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ سرکاری اِداروں کی نجکاری کرے اور کفایت شعاری کا ایسا منصوبہ نافذ کرے جس سے عوام کے مزید غریب ہونے کا امکان ہے‘ لیز فیئر کے یہ پیروکار ہر پلیٹ فارم پر سرگرم ہیں۔ آپ انہیں سوشل میڈیا کے مقبول ذریعے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر اس بات پر زور دیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ آپ فیس بک پر ان کی پوسٹس پڑھ سکتے ہیں جس میں ریاست کی جانب سے چلائے جانے والے اداروں کو سفید ہاتھی کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور جس سے معیشت کا خون ہو رہا ہے۔ آپ انہیں نجی اور سرکاری ٹیلی ویژن چینلوں پر دیکھ سکتے ہیں‘ جو نجکاری‘ لبرلائزیشن اور ڈیریگولیشن کی وکالت کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کے بارے میں اہم سوالات کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ جنرل ضیاء کی آمریت سے پہلے ان سرکاری اداروں کو بھاری نقصان کیوں نہیں اٹھانا پڑ رہا تھا۔ وہ اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ پی آئی اے جسے مشرق وسطیٰ کی ائرلائنز کا بانی سمجھا جاتا ہے‘ آج کس طرح خوفناک حالت میں ہے۔ وہ صرف لوگوں کو اِس بات کا یقین دلانا چاہتے ہیں کہ نیو لبرل ازم کا علاج ہمارے تمام معاشی مسائل کو معجزانہ طریقے سے حل کرے گا۔ اس فری مارکیٹ بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنا ضروری ہے جو ان پنڈتوں کے سامنے سخت سوالات اٹھاتا ہے جنہوں نے معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ معاشی بیماریوں کا علاج کرنے کی یہ ترکیب بہت سے ممالک کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے جنہوں نے اپنے قومی اثاثے اونے پونے داموں فروخت کئے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو سکول سے نکالا اور اپنے گھریلو اخراجات میں کٹوتی کی تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ مزید ایک یا دو سال تک زندہ رہیں گے۔پاکستان کے بیرونی قرضوں پر نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جب ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہ نیو لبرل ایجنڈا ملک پر مسلط کیا گیا تو ہمیں بتایا گیا کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے سرکاری اداروں کو فروخت کر دیا جائے گا۔ اس وقت ملک کا بیرونی قرضہ بیس ارب ڈالر بھی نہیں تھا۔ آج یہ  121 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ سرکاری شعبے کے ایک سو سے زائد اداروں کی نجکاری کے باوجود ہمارے قرضوں کے انبار میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ نجکاری‘ لبرلائزیشن اور ڈی ریگولیشن سے ملک کو صنعتی بنانے میں مدد ملے گی لیکن تیس سال سے زیادہ عرصے کے بعد ہمارے پاس شاپنگ مالز کی بھرمار ہے اور صنعتیں قائم کرنے اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کرنے کی بجائے غیر ملکی اشیا درآمد کرنے پر مبنی ایک بے قابو کنزیومر کلچر موجود ہے۔ ہمیں جو کچھ دیا گیا وہ کوئی صنعتی کمپلیکس نہیں بلکہ اپارٹمنٹس اور ہاؤسنگ کالونیوں کا جنگل ہے جس نے کالے دھن کو سفید کرنے کا کام کیا ہے۔ ان ہاؤسنگ کالونیوں کی بڑھتی ہوئی ترقی کے باوجود‘ گھر کا مالک ہونا نہ صرف غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے چھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کے لئے بلکہ متوسط طبقے کے تمام طبقوں کے لئے بھی ایک خواب بن گیا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اگر نیو لبرل فارمولہ نافذ کیا گیا تو ملک غیر ملکی سرمایہ کاری سے بھر جائے گا اور بہت سے بڑے منصوبے دیکھنے کو ملیں گے جو ملک کے معاشی بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کردیں گے اور اسے خطے کا جنوبی کوریا بننے میں مدد دیں گے۔ اس کے بجائے آج ہماری کرنسی کی قدر افغانستان کی کرنسی سے بھی کم ہے۔ پاکستان نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران صنعت کاری میں کمی دیکھی ہے جبکہ غیر ملکی سرمایہ کار ویت نام‘ ملائشیا‘ بھارت اور دیگر ممالک میں پیسہ لگا رہے ہیں‘ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا تو دور کی بات‘ ہم سے ملنا بھی نہیں چاہتے۔  توانائی کے شعبے میں ہمیں جو غیر ملکی سرمایہ کاری ملی وہ بہت تباہ کن ثابت ہوئی۔ ملک کی اشرافیہ نے انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ تباہ کن توانائی کے معاہدے کئے جن میں انہیں انتہائی منافع بخش شرائط و ضوابط پیش کئے گئے۔ اس کی وجہ سے اب پاکستانیوں کے لئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں مشکل ہو رہی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)