پاکستان کی معیشت بدحالی کا شکار ہے اورر اِس کی تنظیم نو کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کو مالی استحکام کی طرف لوٹنے اور نجی سرمایہ کاروں کو واپس لانے کی ضرورت ہے۔ یہ طویل مدتی مقاصد صرف ’پالیسی فریم ورک‘ کے ذریعے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں جو کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کی مدت میں پورے نہیں ہو سکتے۔ کئی سالوں سے ماہرین اِس بارے متوجہ کر رہے ہیں کہ توانائی اور بجلی کے شعبے میں اصلاحات‘ ٹیکس اصلاحات اور مالیاتی و مانیٹری پالیسی مینجمنٹ میں بہتری لائی جائے اگرچہ ماہرین اقتصادیات کا ویژن بعض اوقات سیاستدانوں سے مختلف ہوتا ہے لیکن ایک ایسی صورتحال میں کوئی بھی معاشی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکتی اگر اُس پر عمل درآمد کرنا سیاسی طور پر مشکل ہو۔ پاکستان میں سیاست دان اور دیگر رہنما سیاسی مشکلات یا عوامی رد عمل کا حوالہ دے کر ناگزیر معاشی فیصلوں کو ہمیشہ ملتوی کرتے آئے ہیں۔پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جو دس فیصد سے کچھ زیادہ ہے اسے پندرہ فیصد تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو سرمایہ کاری راغب کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ اُنیس سو نوے کی دہائی سے سرکاری اداروں (ایس او ایز) کا حکومت پر بوجھ ہے جسے کم کرنے کا وقتاً فوقتا ًمطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ عمل شروع ہو گیا ہے۔ ان کاروباروں کو نجی شعبے میں زیادہ مؤثر طریقے سے چلایا جاسکتا ہے اور غیر ملکی خریدار خوشی سے ان میں سے بہت سے حاصل کریں گے‘ جس سے ضروری غیر ملکی زرمبادلہ حاصل ہوگا‘ کچھ سرکاری ادارے سال ہا سال سے خسارے میں چل رہے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی ریاستی انتظام کے تحت اُن کے منافع بخش (پیداواری) بننے کا امکان نہیں ہے۔ ایسے اداروں کو صرف بند کرنے اور ان کے اثاثے چھین کر دیگر یعنی زیادہ پیداواری، استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں دیگر ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے پاکستان سے ملتے جلتے حالات میں نجکاری کے ذریعے اپنے خزانے پر بوجھ کم کیا۔ پاکستان ایسا کرنے میں ناکام یا پیچھے کیوں ہے؟زیادہ تر ممالک میں ایندھن کی قیمتیں مارکیٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور پاکستان کو اس سے مستثنیٰ نہیں ہونا چاہئے۔ جب بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو صارفین کو زیادہ قیمتیں ادا کرنی چاہئیں بالکل اسی طرح جیسے قیمتوں میں کمی پر انہیں کم لاگت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ موجودہ روایت یہ ہے کہ حکومت توانائی کی قیمتیں طے کرتی ہے۔ جب عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتیں گرتی ہیں تو یہ سرچارج کے ذریعے اپنی آمدنی کے خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی میں بڑھتی ہیں تو اِس کا بوجھ صارفین کو سبسڈی دے کر خود برداشت کرتی ہیں یا بہت کم صارفین کو منتقل کیا جاتا ہے۔ حکومتی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ تیل‘ گیس اور بجلی کی کم قیمتیں انہیں مقبول بناتی ہیں جبکہ زیادہ بلوں کے نتیجے میں عوامی مظاہرے ہوتے ہیں لیکن قیمتوں کو مصنوعی طور پر کم رکھنے میں سبسڈی کا عمل دخل ہوتا ہے‘ جس سے معیشت کو چلانے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ سب کے لئے بہتر ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنی زیادہ تر آمدنی براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کرے‘ اس وقت صارفین پر بوجھ ڈالے ہوئے سرچارجز کو ختم کرے اور ایندھن اور بجلی کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ کے ذریعے کرنے کی اجازت دے۔پاکستان بھی زیادہ رقم چھاپ کر اپنے بجٹ کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا‘ جس کی وجہ سے ہمیشہ افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت اور صوبوں کو ایسے میکانزم پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے جو مالی ذمہ داری کے وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ قومی مالیاتی صورتحال کو اکثر سے کہیں زیادہ پیش گوئی کرنے کی ضرورت ہے۔ برآمدات کو بڑھانے کے لئے مربوط کوشش کی ضرورت ہے۔ 1960ء کی دہائی کی نصابی کتاب کے مطابق پاکستان کپاس کی مصنوعات‘ چاول‘ چمڑے کے سامان‘ سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سازوسامان کا برآمد کنندہ ہے۔ دریں اثنا ہمارا ہمسایہ ملک بھارت‘ جس کا پچاس سال پہلے پاکستان سے ملتا جلتا ایکسپورٹ پروفائل تھا‘ اب ریفائنڈ پیٹرولیم‘ پالش ہیرے‘ پیک شدہ ادویات‘ کمپیوٹر سافٹ وئرز اور زیورات برآمد کر رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین حقانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام