مستقبل پر نظر 

 پاکستان کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن میں ناقص گورننس سسٹم‘ طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان‘ آبادی میں بے قابو اضافہ اور پانی کی قلت سے لیکر ناقص تعلیمی نظام‘ صنعتکاری اور روزگار کے مواقع کا فقدان شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ ’دیوالیہ ملک‘ کی صورت سب کے سامنے ہے جہاں پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے تیزی سے ناقابل برداشت شرح سود پر نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ سماجی و اقتصادی ترقی میں پاکستان کی سب سے بڑی پالیسی غلطیوں میں سے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان رہا ہے۔ قلیل مدتی سیاسی مصلحتوں کو اکثر پائیدار اقتصادی حکمت عملیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اس دور اندیشی کے نتیجے میں ایڈہاک پالیسیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے اور مواقع ضائع ہوگئے ہیں۔ علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کی ضرورت ہے اور اِس کے بغیر طویل مدتی ترقی حاصل نہیں ہو سکے گی۔ مخصوص سماجی و اقتصادی ترقی کے اہداف طے کرنے اور اِنہیں حاصل کرنے کیلئے جدوجہد ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنی سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں میں طویل مدتی منصوبہ بندی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے جس کا بنیادی مقصد مضبوط ٹیکنالوجی یعنی علم پر مبنی معیشت قائم کرنا ہے‘ اس میں واضح‘ قابل پیمائش اہداف اور مقاصد کا تعین‘ جامع حکمت عملی اور سیاسی تبدیلیوں میں پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانا شامل ہے۔ ناقص گورننس ہماری سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں کیلئے مستقل چیلنج رہا ہے۔ ہائی پروفائل کرپشن سکینڈلز نے عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے‘ جس سے یہ سرمایہ کاروں اور امداد دینے والوں کیلئے کم پرکشش ہے۔ ناقص گورننس کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے‘ ہمیں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے جو شفافیت‘ احتساب اور اداروں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔ اس میں آزاد انسداد بدعنوانی ایجنسیوں کے ذریعے بدعنوانی کا مقابلہ کرنے‘ بیوروکریٹک عمل کو ہموار کرنے اور سرکاری ملازمین کیلئے استعداد کار بڑھانے میں سرمایہ کاری شامل ہے مزید برآں‘ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور شہریوں اور کاروباری اداروں کو انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے عدالتی و قانون نافذ کرنے والی اصلاحات ضروری ہیں‘ ہمیں آبادی پر قابو پانے کے مؤثر اقدامات نافذ کرنا ہونگے اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ پاکستان کا ناکافی تعلیمی نظام ’بڑی پالیسی غلطی‘ ہے جس نے سماجی و اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔ تعلیمی نظام کم شرح خواندگی‘ فرسودہ نصاب اور ناکافی سرمایہ کاری کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے‘ جس سے انسانی سرمائے کی ترقی اور معاشی ترقی محدود ہو گئی ہے لہٰذا ہمیں فوری طور پر تعلیم کو سماجی و اقتصادی ترقی کے بنیادی محرک کے طور پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری میں اضافہ‘ اساتذہ کی تربیت اور تدریسی معیار بہتر بنانا‘ روزگار کی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق نصاب کو اپ ڈیٹ کرنا بھی شامل ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنا ہنر مند اور باخبر افرادی قوت کیلئے ضروری ہے جو معاشی ترقی اور ترقی کو آگے بڑھا سکے۔ پاکستان کو انسانی ترقی کو سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں کے بنیادی جزو کے طور پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری میں اضافہ‘ معیاری خدمات تک رسائی کی بہتری اور غربت میں کمی کے پروگراموں کو نافذ کرنا شامل ہے جو سب سے کمزور آبادی کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہماری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات بھی ناکافی رہی ہیں اور یہ عوام کی مجموعی فلاح و بہبود کی راہ میں رکاوٹ ہے تاہم اقتصادی ترقی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی۔ صنعتی شعبے میں تنوع کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ ہم نئی صنعتوں کو فروغ دینے اور زیادہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کرنے کے مواقع سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہمیں صنعتی تنوع کو اپنی اقتصادی حکمت عملی کے ’اہم جزو‘ کے طور پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ جدت طرازی اور صنعتکاری میں بڑے پیمانے پر اور سوچی سمجھی سرمایہ کاری میں مضمر ہے تاہم یہ ایماندار‘ دور اندیش اور تکنیکی طور پر قابل و اہل حکومت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ (مضمون نگار سابق برائے وفاقی وزیر  سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق سربراہ ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)