پاکستان کو درپیش انواع و اقسام کے بحرانوں میں ”آب و ہوا کی تبدیلی‘ ماحولیاتی آلودگی اور آبادی“ شامل ہیں تاہم اِن بحرانوں کا ذکر ذرائع ابلاغ میں بہت کم یا پھر عام فہم خبروں پر مشتمل ٹیلی ویژن چینلوں سے ’صبح کی نشریات (مارننگ شوز)‘ میں کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں آب و ہوا‘ ماحول اور آبادی سے متعلق موضوعات‘ اِن سے جڑی آفات کا ذکر اکثر شہ سرخیوں میں کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح اب 2.55 فیصد ہے جو جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سال دوہزارتیئس کی ڈیجیٹل مردم شماری سے جو اعداد و شمار حاصل ہوئے ہیں وہ انتہائی متنازع ہیں لیکن اِن ناکافی اعدادوشمار سے بھی جو ایک بات واضح ہو کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی چوبیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے یعنی چھ برس کے عرصے میں پاکستان کی آبادی میں ساڑھے تین کروڑ (پنتیس ملین) افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس جب بھارت‘ چین اور بنگلہ دیش کی آبادی میں اضافے کو دیکھا جاتا ہے تو اِن ممالک نے آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح کو کم کیا ہے۔ سماجی بہبود سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے درمیان اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آبادی میں اضافے کی بلند شرح کسی بھی ملک کے وسائل کے لئے خطرہ ہوتی ہے خاص طور پر جب غذائی تحفظ اور زرعی پیداوار سے متعلق برسرزمین حقائق کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں آب و ہوا کی تبدیلی‘ ماحول کے عدم توازن کا احساس تو کیا گیا لیکن آبادی کے بڑھنے ‘ اِس سے پیدا ہونے والے شہری و زرعی تناو¿ کو مربوط منصوبہ بندی یا عوامی تعلیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ ماحولیاتی اور آب و ہوا سے متاثرہ طبقات کو لاحق خطرات کے باوجود‘ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور آبادی کے درمیان سائنسی روابط بہت کم ہیں اور اِس حوالے سے خاطرخواہ اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں‘آئی پی سی سی کی چھٹی تشخیصی رپورٹ (دوہزاربائیس) میں واضح طور پر آبادی میں تیزی سے اضافے کو موسمیاتی اہداف کے حصول میں ”رکاوٹ“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک جو عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کےلئے بہت ہی کم ذمہ دار ہیں اور یہاں زیادہ آبادی کے باوجود بھی فی کس زیادہ ماحول کےلئے خطرات نسبتاً کم ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ امیر صنعتی ممالک کی وجہ سے ’گرین ہاو¿س گیسوں‘ کا اخراج زیادہ ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے اِس لئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کےلئے ماحول دشمن گیسوں اور دھواں یا آلودگی پھیلانا مسئلہ نہیں بلکہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ خطرے کی بات ہے کیونکہ ملک کے پاس اِس قدر بڑی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے وسائل کم ہیں۔ حکومت کے اخراجات زیادہ لیکن آمدنی کے وسائل کم ہیں یا اُن پر آبادی کا مسلسل دباو¿ بڑھ رہا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ زراعت پر مبنی معیشتوں میں ٹیکنالوجی‘ سافٹ اسکلز تک رسائی کی کمی‘ شدید گرمی اور موسمی اتار چڑھاو¿ نے معاش کو مجموعی طور پر کمزور کر رکھا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں‘ جب آبادی میں اضافہ ہوتا ہے‘ تو اِس سے عدم مساوات اور محرومیاں جنم لیتی ہیں۔ درحقیقت موسمیاتی تبدیلی‘ تنازعات اور وبائی امراض کو بھی جنم دیتے ہیں جن سے پہلے ہی کم آمدنی رکھنے والے طبقات متاثر ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں اَسی کروڑ سے زیادہ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں اور اُنہیں جسمانی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں مل رہی۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ صرف اس وجہ سے بڑھ رہا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس زراعت (آبپاشی) اور دیگر ضرورت کےلئے پانی و غذائی وسائل کی کمی ہے اور موجودہ ذخائر یا وسائل سے ملک کے پسماندہ افراد کی غذائی ضروریات پورا نہیں ہو رہیں۔ علاو¿ہ ازیں یہی معاشی طور پر کمزور غذائی افراط زر (مہنگائی) اور شدید موسمی اثرات کے نشانے پر بھی ہیں۔دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان نے شہروں کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے اور اگرچہ پاکستان کی اکثریتی آبادی اب بھی دیہی علاقوں میں رہتی ہے لیکن شہری علاقوں کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 38 فیصد ہے اور شہروں میں رہنے والے چالیس فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو سہولیات کے بغیر کچی پکی بستیوں (غیرصحت مند ماحول) میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بستیاں شدید گرمی یا سیلاب سے فوری متاثر ہوتی ہیں کیونکہ اِن میں نکاسی آب یا ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا خاطرخواہ انتظام نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں شہری گرمی کے اثرات یا سیلاب سے فوری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اِسی طرح دیہی علاقوں کی صورتحال بھی زیادہ مثالی نہیں ہوتی جہاں سیلاب کا پانی سرسبز کھیتوں کو دلدلی علاقوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کےلئے مقامی حکومتیں جدوجہد کرتی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اُن کے پاس خاطرخواہ مالی و تکنیکی وسائل نہیں ہوتے۔ شرح نمو کو مستحکم کئے بغیر چارہ نہیں رہا۔ آبادی میں اضافے کی بلند شرح زرعی پیداوار میں کمی اور موسمی اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئے تناو¿ اور اِس کے منفی اثرات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام