بچوں کی حفاظت

بچوں کا تحفظ ایک ایسا موضوع ہے جس پر پاکستان میں بہت کم بات ہوتی ہے۔ اِس حوالے سے متعدد رپورٹس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یونیسیف کے تعاون سے سندھ حکومت کافی سرگرم رہی ہے اور اِس نے مختلف سطحوں پر کامیابی بھی حاصل کی ہے لیکن صوبائی اور قومی سطح پر بچوں کے حقوق سے متعلق موجودہ قانونی فریم ورک کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ’سندھ‘ ایسا پہلا صوبہ ہے جس نے سندھ چلڈرن ایکٹ 1955ءنافذ کیا تھا اور اِسے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد زیادہ مستحکم بنایا گیا ہے۔ اُنیس سو بیس اور اُنیس سو تیس کی دہائیوں میں سندھ میں بچوں سے متعلق دو اہم قوانین موجود تھے۔ بمبئی چلڈرن ایکٹ 1924ءاور چلڈرن ایکٹ 1933ءمذکورہ دونوں قوانین بچوں سے کام کاج لینے کی کم از کم عمر کا تعین کرتے ہیں۔ مائنز ایکٹ 1923ءکے تحت کام کے لئے کم از کم عمر پندرہ سال مقرر کی گئی تھی جبکہ فیکٹریز ایکٹ 1934ءمیں کام کاج کی کم سے کم عمر 14 سال مقرر کی گئی ہے۔ 1936ءسے پہلے ’سندھ بمبئی پریزیڈنسی‘ کا حصہ تھا اور بمبئی مقننہ نے جو قوانین منظور کئے تھے وہ سندھ میں لاگو تھے۔ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد نئے صوبے میں بھی وہی قوانین جاری رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1933ءکے ایکٹ کو بلوچستان میں لاگو کیا گیا اور انہیں بلوچستان کے لیز شدہ علاقوں اور بلوچستان اسٹیٹس یونین تک توسیع دی گئی۔ اُسی سال چلڈرن (گروینگ آف لیبر) ایکٹ 1933ءکا اطلاق سندھ کے خیرپور اور ریاست بہاولپور تک بھی کیا گیا۔ سندھ چلڈرن ایکٹ 1955ءکی منظوری کے ساتھ ہی سندھ حکومت نے بمبئی چلڈرن ایکٹ 1924ءکو بھی منسوخ کر دیا جس کے تحت عدالت کو مجرم کو جیل بھیجنے کا اختیار حاصل تھا۔ 1955ءکے ایکٹ کے تحت عدالت کو حکم دینا تھا کہ مجرم کو ایسی جگہ یا طریقے سے محفوظ تحویل میں رکھا جائے جہاں وہ مناسب لگے۔ 1955ءکے ایکٹ کے تحت‘ فوجداری ضابطہ کار‘ 1898ءکی دفعات اس ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت اور کاروائی کے انعقاد پر لاگو ہوتی ہیں‘ جب تک کہ اِنہیں واضح طور پر فراہم نہ کیا جائے۔ 1955ءکے اسی ایکٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جووینائل کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بچوں کو تصدیق شدہ سکولوں یا کسی فٹ شخص یا کسی بھی ادارے کے حوالے کر سکتی ہے۔ مذکورہ ایکٹ کے حصہ چھ میں بچوں کے بارے میں خصوصی جرائم کا ذکر کیا گیا اور کم عمر مجرموں کے لئے ضمانت کی سہولت دی گئی۔ اس قانون نے ایک بالغ کے ساتھ ایک نابالغ کے مشترکہ ٹرائل کرنے کو بھی ختم کیا۔ سندھ حکومت نے 1955ءمیں تحلیل ہونے سے قبل اس ایکٹ میں بچوں کے استحصال کی روک تھام کے لئے بھی دفعات شامل کی تھیں۔ مذکورہ ایکٹ میں نوجوان مجرموں کو ان کے اپنے بانڈز پر ان کے آبائی صوبوں میں واپس بھیجنے کا اہتمام کیا گیا تھا اور بچوں کو سزائیں دینا ختم کردیا گیا تھا۔ ’روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس1961ئ‘ کے تحت روڈ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کام کرنے کی کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کی گئی پھر 1969ءمیں سندھ اور شمالی مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) میں شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈیننس اور اس کی صوبائی اقسام کے ذریعے دکانوں اور اداروں میں کام کرنے کی کم از کم عمر چودہ سال مقرر کی گئی۔ بدقسمتی سے ون یونٹ حکومت نے کبھی بھی 1955ءکا مذکورہ ایکٹ نافذ نہیں کیا سندھ نے 1955ءمیں بچوں کے حقوق سے متعلق پہلے قوانین میں سے ایک نافذ کیا لیکن مغربی پاکستان کی ون یونٹ حکومت نے 1955ءسے 1970ءتک اس کے نفاذ کے لئے کبھی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا اگرچہ جنرل یحییٰ کی حکومت نے ’ون یونٹ سسٹم‘ تحلیل کر دیا‘ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے 1955ءکے ایکٹ کو نافذ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا لیکن اس کے بعد سے کسی بھی حکومت نے اسے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر نذیر محمود۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)