امریکی پالیسی ساز بھارت کے بارے میں جب کبھی بھی بات کرتے ہیں تو ان کے لہجے پر نرمی غالب آ جاتی ہے اور وہ بھارت کے ثقافتی تنوع کی تعریف سے اکثر بات شروع کرتے ہیں اور اسے دنیا کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتے ہیں۔ مشترکہ جمہوری اصولوں کی مشترکہ اقدار کا جوش و خروش امریکہ اور بھارت کے پائیدار تعلقات کی بنیاد رہا ہے۔ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں ایک حریف کے طور پر دیکھتا ہے۔ سرد جنگ کی اِس دشمنی میں بھارت کا مو¿قف غیر متزلزل ہے اور وہ اپنے معاشی و تزویراتی مفادات کو جمہوری اقدار سے زیادہ شراکت داری کے طور پر دیکھتا ہے۔ بھارت سے امریکہ کی گہری توقعات وابستہ ہیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ کے ساتھ مشترکہ جمہوری اقدار کی بنیاد پر کمیونسٹ روس کے خلاف کھڑے ہونے کے لئے بھارت کو فطری شراکت دار سمجھا جاتا تھا لیکن بھارت نے واشنگٹن کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کرکے اِسے بار بار مایوس کیا اور اس کے بجائے ماسکو کے ساتھ گرم جوشی کو فروغ دیا۔ جب سرد جنگ ختم ہوئی تو نئی دہلی نے ماسکو کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھے۔ صدر بش سے لے کر کلنٹن اور اوباما سے لے کر جو بائیڈن تک کی حکومتوں نے امریکہ کے لئے یہ ضروری سمجھا کہ وہ جمہوری بھارت کی حمایت کرے‘ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کرے اور فراخدلانہ معاشی امداد فراہم کرے۔ اپنے
پیشروو¿ں کی طرح موجودہ امریکی انتظامیہ بھی اپنے مفادات کے لئے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات پر زور دے رہی ہے۔ مودی کو دو جمہوری سربراہ اجلاسوں میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے جون دوہزارتیئس میں امریکہ کا سرکاری دورہ بھی کیا اور دوہزارنو میں منموہن سنگھ کے بعد اس پروٹوکول کے تحت امریکہ کے دورے پر مدعو کئے گئے تیسرے بھارتی رہنما بن گئے تھے۔ یہ دورہ اِس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے قابل بنانے کے لئے امریکہ کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ امریکہ کے لئے ’فرینڈشورنگ‘ کو آگے بڑھانے کا ایک موقع تھا جو ایک ایسی حکمت عملی ہے کہ جو بھارت کو چین سے دور کرتا ہے۔ بھارت نظریں اپنی دفاعی پیداوار کے لئے اہم ٹیکنالوجی حاصل کرنے‘ مصنوعی ذہانت‘ معدنیات اور سیمی کنڈکٹر جیسے شعبوں میں امریکی امداد ملنے پر ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ رواں مالی سال کے دوران امریکہ اور بھارت کی تجارت کا حجم 78 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور امریکہ بھارت کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ جمہوری اقدار کو امریکہ اور بھارت کے تعلقات کی بنیاد بنانے نے اس دعوے کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ‘ جو جمہوری نظریات کی پرجوش حامی ہے‘ جب بھارت کی جمہوری ساکھ تباہ ہوتے دیکھتی ہے تو وہ بھارت کی حمایت کرنے میں خود کو کمزور بنیادوں پر کھڑا پاتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے‘ جہاں حزب اختلاف کو منتشر کیا گیا ہے‘ پریس و تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کو تشدد کے ذریعے خاموش کر دیا گیا ہے۔ چند ماہ قبل بھارتی حکومت نے برطانوی خبررساں ادارے (بی بی سی) کی ایک دستاویزی فلم پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اِس دستاویزی فلم میں ریاست گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات میں وزیراعظم مودی کے کردار کو اجاگر کیا گیا تھا جو سال دوہزاردو میں گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ نئی دہلی نے ایک بار پھر جمہوری اقدار پر وائٹ ہاو¿س کو مایوس کیا ہے۔ اس نے امریکہ کی پالیسی کے برخلاف برما کی فوجی حکومت کو ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ بھارت نے روس کے خلاف امریکہ اور عالمی اقتصادی پابندیوں پر عمل کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے اور روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد روس سے مزید کم قیمت پر زیادہ مقدار میں تیل خریدنا شروع کر رکھا ہے۔ بھارت کا رویہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ نیٹو کے رکن کی طرح واشنگٹن کا اتحادی نہیں اور امریکہ کو معلوم
ہونا چاہئے کہ بھارت بہت زیادہ انحصار اور اِس سے گہرے تعلقات استوار کرنے کی کوشش بھارت کے رویئے میں حسب توقع تبدیلی نہیں لائے گی۔ جمہوری اقدار سے زیادہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مشترکہ مفادات کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی منڈیوں میں عظیم اقتصادی امکانات دیکھ رہے ہیں۔ اس کے باوجود دونوں کے سامنے ایک ہی چیلنج ہے اور وہ ہے چین۔ سال دوہزاربیس میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے دوران‘ جب فضا بداعتمادی سے بھری ہوئی تھی تب امریکہ نے اپنے دفاعی تعاون کو بڑھا کر بھارت کو چین پر حاوی کرنے کی کوشش کی اگرچہ بھارت نے چینی ایپس پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور چینی کمپنیوں کو مختلف حربوں سے پریشان کیا جا رہا ہے لیکن چین و بھارت کے درمیان تجارت بدستور جاری ہے اور اِس کے حجم میں تیزی سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ بھارت اپنی سلامتی کے خدشات سے غافل نہیں اور چین کے خلاف اپنا دفاع بنا رہا ہے لیکن وہ تیز رفتار اقتصادی ترقی کو اپنی دفاعی طاقت کے لئے لازم بھی سمجھتا ہے اور چین کے ساتھ کاروبار اِس کی اقتصادی ترقی کے حصول میں مدد گار ثابت ہوگا لہٰذا بھارت چین کے ساتھ اپنے معاشی مفادات کی قیمت پر کبھی بھی امریکہ کا ساتھ نہیں دے گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر بیلم رمضان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)