بدلتی دنیا : عالمی طاقتیں‘ خارجہ پالیسی اُور پاکستان کے مفادات
’چائنا سٹڈی سنٹر (جامعہ پشاور)‘ کے زیراہتمام عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی ’74ویں سالگرہ‘ کی تقریب میں خیبرپختونخوا کے نگران وزیر برائے کھیل‘ امور نوجوانان‘ سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر نجیب اللہ‘ وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی پشاور پروفیسر ڈاکٹر جہان بخت‘ اساتذہ اُور مختلف شعبوں میں زیرتعلیم طلبہ کی بڑی تعداد کے علاو¿ہ مختلف حکومتی محکموں کے اعلیٰ عہدیدار اُور غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندوں نے شریک ہو کر ’پاک چین دوستی‘ کی صورت اِس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان مختلف شعبوں میں دیگر ممالک کی کامیابیوں‘ تکنیکی وسائل اُور بالخصوص تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں کس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مذکورہ تقریب کا اہتمام ’پاک چائنا فرینڈشپ ایسوسی ایشن کی ’خیبرپختونخوا شاخ‘ نے کیا تھا اُور اِس موقع پر نہ صرف پاکستان و چین کے درمیان ترقیاتی شراکت داری کے مختلف پہلوو¿ں اُور مزید تعاون کے اِمکانات کا جائزہ لیا گیا بلکہ اِس حوالے سے بھی بات چیت کی گئی کہ چین کی ترقی کا راز کیا ہے اُور بدلتی ہوئی دنیا میں جبکہ عالمی طاقت کے تصور کو ’نئی جہت‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تو اِن حالات میں پاکستان کے مفادات کیا ہیں اُور اِن کا تحفظ سفارتی و دیگر شعبوں میں تعاون کے ذریعے کس طرح ممکن بنایا جا سکتا ہے؟
ایک ایسی دنیا میں جو انتظامی طور پر ’عدم متوازن‘ کا شکار ہے اُور خاص بات یہ ہے کہ اب عالمی طاقت ہونے جیسی اجارہ داری کسی ایک ملک کے پاس بھی نہیں رہی۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ’بائیوپولٹری‘ کہلانے والا دور ختم ہو چکا ہے اُور اب دنیا ’کثیر قطبیت (ملٹی پورلیٹری) کی طرف بڑھ رہی ہے تو اِس وقت پاکستان کے اہم اِتحادیوں بشمول و بالخصوص امریکہ کو چاہئے کہ وہ اپنی ’خارجہ پالیسی‘ کا ازسرنو جائزہ لے اُور ’کثیر قطبیت (ملٹی پولیٹری) کو اپنائے جس کے تحت مستقبل کی ضروریات کو مو¿ثر طریقے سے پورا کرنے کے لئے مواقعوں کو تشکیل دینے کا یہی مناسب وقت ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ عالمی منظرنامے میں ممالک کی سوچ اُور اِس سوچ سے تشکیل پانے والی حکمت عملیاں تغیرپذیر ہیں اُور امریکہ یہ بات جاننے کی کوشش میں ہے کہ اُسے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے کیسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اِس موضوع کے حوالے سے حکومتی اُور غیرحکومتی سطح پر بات چیت (سوچ بچار) کا عمل جاری ہے اُور اِس حوالے سے عموماً بات کا آغاز کرتے ہوئے جس ایک چیز پر زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ”آج کی دنیا میں‘ ہر لحاظ سے‘ سب سے زیادہ طاقتور ملک کونسا ہے؟“ کیا عالمی طاقت کسی ایک ملک یعنی امریکہ کے پاس ہے یا چین و دیگر ممالک بھی ’عالمی طاقت‘ بن چکے ہیں؟ یادش بخیر سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین بڑے حریف تھے لیکن اب امریکہ اور چین کو ایک دوسرے کا بڑا حریف سمجھا جا رہا ہے لیکن درحقیقت یہ وقت محتاط رہنے اُور اِن تصورات کا اجمالی نہیں بلکہ گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لائق توجہ ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ دنیا کس طرح بدل رہی ہے؟ کیا یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں بہت سی بڑی طاقتیں (ملٹی پولر)‘ صرف دو بڑی طاقتیں (بائی پولر) یا صرف ایک بڑی طاقت (یونی پولر) ہیں؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا اِس نئی دنیا میں طاقتور ممالک کے درمیان بڑی لڑائیوں کے امکانات پہلے سے زیادہ یا کم ہوئے ہیں یا موجودہ وقت میں ماضی کے مقابلے میں نسبتاً کم لڑائیاں ہو رہی ہیں؟ (یقینا قارئین کے ذہن میں وہ وقت محفوظ ہوگا جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ تھی۔) تاہم امریکہ نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہو یا نہ ہو لیکن اِس بدلتی دنیا میں اُس سے زیادہ ’ہوشیار فیصلوں‘ کی توقعات کی جا رہی ہیں کیونکہ آج عالمی تعلقات اُور اِن تعلقات سے ظہورپذیر ہونے والے اتحاد چند بڑے ممالک کے ہاتھوں میں نہیں رہے بلکہ یہ بہت سے مضبوط اور فعال درمیانے درجے کے ممالک میں بھی پھیل چکے ہیں اُور آج دنیا کا مستقبل تشکیل دینے میں ایک دو نہیں بلکہ کئی ممالک شریک ہیں۔
عمومی تصور یہ ہے کہ جب بہت سارے طاقتور ممالک ہوتے ہیں تو اپنی اپنی سرحدوں سے باہر اِن کے توسیعی مفادات کی وجہ سے ایک دوسرے سے زیادہ لڑائیاں ہوتی ہیں لیکن شواہد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے یہ لڑائیاں بڑی نہیں بلکہ اکثر چھوٹی ہوتی ہیں۔ امریکہ کے پاس بدلتی دنیا اُور بدلتی سوچ سے نمٹنے کے لئے ایک سے زیادہ منصوبے ہیں لیکن یہ منصوبے ایسے خیالات پر منحصر ہیں جو سوفیصدی صحیح نہیں ہو سکتے۔ امریکہ چین کے خلاف کھڑے ہونے کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ دوستی چاہتا ہے جیسا کہ اتحادی ممالک کا ’بڑا گروپ‘ بنانا لیکن اِس نئی دنیا میں‘ ایسا کرنا مشکل ہوسکتا ہے اور اِس سے ’بڑی لڑائی‘ ہونے کا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال وضع کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ بہت سے ممالک پر مبنی اتحادیوں کا ایک بڑا گروہ بنانے کی بجائے اِسے مختلف ممالک کے ساتھ مل جل کر کام کرنا چاہئے۔ اِس طرح امریکہ اپنے اُور دوسرے ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پائیدار دوستی پر مبنی معاہدے کر سکتا ہے اور یوں عالمی تعاون محدود نہیں رہے گا بلکہ اِس کی شاخیں پھیل جائیں گی اُور اِن سے نہ صرف مفادات کے تصادم کے خطرات کم ہو جائیں گے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں اُور دیگر ایسے چیلنجوں سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ بدلتی دنیا میں‘ امریکہ کو غیرجانبدارانہ اُور لچکدار خارجہ حکمت عملی کا انتخاب کرنا چاہئے جس سے عالمی و علاقائی سطح پر طاقت کا توازن خراب نہ ہو اُور عالمی امن برقرار رہے۔ ایسا امن جو سب کی ضرورت اُور جس کا قیام صرف ضرورت نہیں بلکہ بقائے انسانی کے لئے مجبوری بھی ہے۔
(مضمون نگار ’پاک چائنا فرینڈشپ ایسوسی ایشن‘ خیبرپختونخوا شاخ کے سیکرٹری جنرل ہیں)
کیٹگری: ابوالحسن امام