ڈاکٹروں کی کمی اور مسائل

آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جس میں طبی ماہرین کی اشد ضرورت کے باوجود 35 فیصد خواتین ڈاکٹرز بے روزگار ہیں‘گیلپ پاکستان اور پرائیڈ نامی غیرسرکاری تنظیموں نے سال 2020ءاور 2021ءمیں جمع کردہ اعدادوشمار کو ’لیبرفورس سروے کی صورت جاری کیا ہے جس میں حکومتی ادارہ¿ شماریات کے جاری کردہ کوائف بالخصوص خواتین گریجویٹس پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اِس کوشش کے نتیجے میں جو صورت حال اُبھر کر سامنے آئی ہے وہ صرف تشویش ناک ہی نہیں بلکہ حیران کن بھی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ڈاکٹروں کی کمی سے معالجین کام کی زیادتی کے سبب نفسیاتی تناو¿ کا شکار ہیں۔پاکستان میں صحت عامہ کا شعبہ انفرااسٹرکچر اور وسائل کی کمی سے متاثر ہے۔ نئے گریجویٹس کےلئے ملازمتی مواقع محدود ہیں بےروزگاری بڑھ رہی ہے جبکہ صحت کے شعبے میں امتیازی سلوک بھی اس معاملے میں غیرمعمولی کردار ادا کر رہا ہے اکثر خواتین ڈاکٹرز کو غیرمساوی سلوک کا سامنا بھی ہے یا پھر محکمانہ ترقیوں میں انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے جوکہ اُن کی بےروزگاری میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے لیکن سب سے اہم وجہ بچوں کی پرورش اور فیملی سپورٹ کی کمی ہے جس کی وجہ سے خواتین ڈاکٹرز کےلئے اپنی پیشہ ورانہ اور نجی زندگیوں میں توازن قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ کچھ تاخیر سے یا فوری طور پر اپنے کیریئر کو ترک کردیتی ہیں‘میڈیکل یا ڈینٹل کی تعلیم اِسی لئے دلائی جاتی ہے تاکہ بیٹیوں کے اچھے رشتے آئیں کیونکہ ”ڈاکٹر بہو“ معاشرے میں اچھے اسٹیٹس کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پھر ان سے یہ بھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ گھروں میں روٹیاں بنائیں۔ ایسے رویئے معاشرے کےلئے پریشان کن ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم پانچ سال پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ہر سال اوسطاً سترہ لاکھ روپے فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ والدین کا مطالبہ ہے کہ حکومت لڑکیوں کےلئے میڈیکل کی تعلیم کےلئے وظائف کا آغاز کرے۔ پاکستان میں خواتین ڈاکٹرز کے کام نہ کرنے کی شرح کو کم کرنا بھی اپنی جگہ ضروری ہے کہ صنفی تقسیم‘ صحت عامہ کا انفرااسٹرکچر‘ کام کاج کی جگہوں پر تعصب اور خاندانی سپورٹ جیسے متعدد مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اِن مقاصد کے حصول کےلئے سب سے پہلا قدم ایسی پالیسیوں کا نفاذ ہوگا جن کے ذریعے ٹھوس اقدامات کئے جا سکیں جن سے صحت عامہ کے شعبے میں صنفی مساوات کو فروغ ملے‘ایسی قانون سازی ضروری ہے جس کے ذریعے طبی اداروں میں خواتین کو مساوی مواقع فراہم ہوں‘ ان اقدامات میں طبی اداروں میں خواتین ڈاکٹرز کی خدمات حاصل کرنا‘ انہیں برقرار رکھنے کےلئے مراعات یا گرانٹ کی فراہمی‘ ترقی کے مساوی مواقع اور صنفی تنوع کے اہداف پورا کرنے کےلئے صنفی امتیازات ختم کرنا بھی شامل ہے مینٹورشپ پروگرامز اور پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے مواقع پیدا کرکے‘ خصوصی طور پر خواتین ڈاکٹروں کو ان کا کریئر جاری رکھنے میں مدد دی جا سکتی ہے اس طرح خواتین کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی اور وہ میڈیکل کے شعبے میں اپنا کریئر بھی جاری رکھ سکیں گی۔کیا ہمارے ہسپتالوں یا کارپوریٹ سیکٹر میں ڈے کیئر کی سہولیات موجود ہیں؟ اگر ہیں تو وہ اتنی کم ہیں کہ انہیں بآسانی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب پیٹرول کی قیمتوں اور ٹریفک کو دیکھتے ہوئے ہمارے یہاں جو نجی ڈے کیئر مراکز ہیں وہاں سے کام پر آنے جانے کے بھی اپنے الگ اخراجات ہیں جبکہ بچوں کو سکول سے لانے اور چھوڑنے کے اخراجات شامل نہیں۔ اس کے علاوہ بار بار اجازت لےکر دفتر یا طبی مراکز سے جانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔خواتین ڈاکٹرز میں عدم ملازمت کی شرح کم کرنا صرف شعبہِ صحت کو وسعت دینے اور صنفی مساوات کا معاملہ نہیں بلکہ یہ سماجی بہبود پر براہِ راست اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان اپنے بنیادی چیلنجز سے نمٹنے کےلئے خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے اور صحت مند معاشرے کو فروغ دے کر اچھے مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر سارا دانیال۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)