رواں برس خوراک کے نقصانات اور فضلے کے بارے میں آگاہی کے بین الاقوامی دن کا موضوع (تھیم) ’خوراک کے ضیاع اور خوراک کے باقیات پھیلانے سے روکنا تھا‘ گرینلی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق خوراک کے نقصان سے مراد غیر کھائی گئی زرعی‘ جنگلات اور ماہی گیری کی مصنوعات ہیں جبکہ کھانے کی باقیات سے مراد وہ خوردنی خوراک ہے جو انسانی استعمال کےلئے ہوتی ہے لیکن اِس کی بڑی مقدار بنا استعمال ضائع ہوجاتی ہے‘ اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کھاتے ہوئے اپنی پلیٹ میں ضرورت سے زیادہ کھانا ڈال لیتے ہیں لیکن پھر اُسے کھا نہیں سکتے‘ایسا کھانا ضائع شمار ہوتا ہے۔ اِسی طرح فصل کی کٹائی‘ ذخیرہ اندوزی‘ اشیائے خوردونوش کی نقل و حمل اور اِن کی تقسیم کے عمل کے دوران بھی خوراک کی ایک خاص مقدار ضائع ہوتی ہے جس سے متعلق شعور اُجاگر کرنے کےلئے عالمی دن منایا جاتا ہے‘اقوام متحدہ نے رکن ممالک کے لئے پائیدار ترقی کے اہداف مقرر کئے ہیں جنہیں ’ایس ڈی جیز‘ کہا جاتا ہے‘ یہ ترقی کے اہداف سال 2030ءتک کےلئے ہیں اوراس میں شامل ایک ہدف یہ بھی ہے کہ دنیا سے بھوک کا خاتمہ کیا جائے اور اِس مقصد کے لئے خوراک کا ضیاع روکنے اور خوراک کی باقیات بچانے جیسے امور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے‘ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020ءمیں 72 کروڑ سے 82 کروڑ کے درمیان دنیا میں ایسے لوگ تھے جنہیں بھوک کا سامنا تھا جبکہ دوسری طرف خوردنی اشیا ءکا ضیاع اور غذائی عدم تحفظ عام ہے‘ خوراک کے اِس نقصان اور ضیاع کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے آب و ہوا کی تبدیلی ہے‘آب و ہوا کی وجہ سے آنے والی آفات جیسا کہ سیلاب اور خشک سالی فصلوں کی پیداوار کم کر دیتی ہیں‘ جس سے غذائی عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سال دوہزاربائیس کے سیلاب نے ملک کے زرعی شعبے پر حد سے زیادہ متاثر کیا‘ورلڈ بینک کے مطابق ”ہاو¿سنگ‘ زراعت اور مال مویشیوں کی صورت پاکستان کو بالترتیب 5.6 ارب ڈالر‘ 3.7 ارب ڈالر اور 3.3 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا۔ مذکورہ سیلاب اور دیگر موسمیاتی تبدیلی جیسے محرکات کی وجہ سے زرعی پیداوار اور فصلیں تباہ ہوئی ہیں ‘ کھیتوں میں کھڑا پانی‘ کسانوں کے بے گھر ہونے اور نئی فصلیں اگانے کےلئے بچت کی کمی سے کسان نئی فصلیں نہیں اگا سکے۔اشیائے خوردونوش کے ضائع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ صارفین کی اکثریت بہترین اور تازہ اشیائے خوردونوش خریدتی ہے۔ بہترین معیار کا کھانا حاصل کرنے کے بعد اُس کی بڑی مقدار کو پھینک دیا جاتا ہے اور اِس سے پیدا ہونے والا کچرا بھی ایک الگ سے ماحولیاتی نقصان کا باعث بنتا ہے‘ فصل کی کٹائی‘ پیکنگ اور نقل و حمل کے وقت پرانی ٹیکنالوجیز کے انتظام و استعمال سے خوراک کا نقصان ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کسانوں کو کاشتکاری کے روایتی طریقے بہتر بنانے کےلئے معلومات اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ آگاہی کی کمی اور ری سائیکلنگ اور وسائل و پیداواری ضروریات کے بار بار دوبارہ استعمال کی تکنیکوں سے ناآشنائی بھی خوراک کے نقصانات کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں‘ سال 2013ءمیں عالمی ادارہ¿ خوراک (ایف اے او) نے تخمینہ لگایا تھا کہ ہر سال ایک اعشاریہ تین گیگا ٹن خوردنی کھانا ضائع ہو رہی ہے‘ جس سے 3.3 گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی ماحول دشمن گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ بعض اوقات کھانا سڑکوں اور گلی کوچوں میں سرراہ پھینک دیا جاتا ہے جس سے ہمارا ماحول غیر صحت مند اور مضر صحت ہوجاتا ہے۔ کچرے کے اس طرح کے ڈھیر بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ مزید برآں‘ ضائع شدہ خوراک کے معاشی اخراجات بوائی‘ کٹائی‘ نقل و حمل اور صارفین کی خریداری سے شروع ہوتے ہیں جو معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگوں کو اشیائے خوردونوش بچانے اور حسب ضرورت (کم سے کم) استعمال کرنے کے حوالے سے شعور دیا جائے۔ اس مقصد کےلئے تعلیمی اداروں میں میڈیا مہمات اور سیمینارز و کانفرنسوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے اور طلبہ کو تخلیقی خیالات کے ذریعے بچ جانے والی کھانے پینے کی اشیا دوبارہ استعمال کرنے کی سرگرمیوں کی طرف راغب کر کے اُنہیں خوراک کی عزت کرنے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام