صحرائے چولستان

فوج کا کام کسی ملک کا صرف سرحدی دفاع ہی نہیں بلکہ اُس کے معاشی مفادات کو تحفظ بھی فراہم کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں اُن ممالک کی جزوی فہرست دی جا رہی ہے جہاں کی افواج زراعت کے شعبے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اِن میں چین‘ اسرائیل‘ بھارت‘ روس‘ برازیل‘ مصر‘ ویت نام‘ انڈونیشیا‘ کینیا‘ جنوبی افریقہ‘ زمبابوے‘ انگولا‘ موزمبیق‘ کولمبیا‘ وینزویلا‘ کیوبا‘ میکسیکو‘ پیرو‘ ارجنٹائن‘ میانمار‘ ایران‘ عراق‘ ترکی‘ سوڈان‘ ایتھوپیا‘ چلی‘ بولیویا‘ ایکواڈور‘ گوئٹے مالا‘ ہونڈوراس‘ ایل سلواڈور‘ نکاراگوا اور کوسٹا ریکا شامل ہیں۔پاکستان فی الوقت ساٹھ ارب ڈالر مالیت کی زرعی مصنوعات تیار کر رہا ہے۔ صحرائے چولستان تقریباً پچیس ہزار آٹھ سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے‘چولستان میں سمارٹ فارمنگ تکنیک پر عمل درآمد سے سنترے‘ ایواکاڈو‘ بلیو بیری‘ انگور‘ سیب‘ لیموں‘ زیتون‘ امرتین‘ مکئی‘ گندم اور چاول کی کاشت سے اضافی ساٹھ ارب ڈالر کمائے جا سکتے ہیں‘کیا ہم چولستان کو کھیتی باڑی کے لئے
 استعمال کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا کیا گیا تو اس تبدیلی کو عملاً ممکن بنانے کے دو اہم عوامل ہوں گے ایک تو مؤثر پانی کا انتظام اور دوسرا جدید ٹیکنالوجی۔ پانی کے انتظام کی حکمت ِعملی میں بارش کا پانی جمع کرنا‘ سیلاب کے پانی کو چولستان کی طرف موڑنا اور ری سائیکلنگ شامل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چولستان میں پائیدار زرعی اراضی کی تبدیلی کو پورا کرنے کے لئے مطلوبہ ٹیکنالوجی پہلے سے ہی موجود ہے۔کیا ہم چولستان کے صحرا کو سرسبز کھیت میں تبدیل کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب درست آبپاشی میں مضمر ہے‘ جہاں سمارٹ فارمنگ ڈرپ آبپاشی سے خودکار آبپاشی‘ متغیر شرح آبپاشی (وی آر آئی)‘ وائرلیس سینسر نیٹ ورکس‘ انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی)‘ گروتھ بیسڈ آبپاشی (جی بی آئی) اور اب الگورتھم پر مبنی مصنوعی ذہانت سے چلنے والی آبپاشی شامل ہیں‘کیا چولستان کو سرسبز کھیت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ ہاں اگر آبپاشی‘ فرٹیلائزیشن (کھاد) اور کیڑوں پر قابو پانے سمیت کاشتکاری کے مختلف پہلوؤں کو بہتر بنانے کیلئے ٹیکنالوجی‘ اعداد و شمار اور آٹومیشن کا فائدہ اٹھایا جائے۔ ریموٹ مانیٹرنگ اور کنٹرول کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ الگورتھم پر مبنی آبپاشی کے نظام کے بغیر بھی نہیں۔ پانی کے ضیاع کو کم سے کم کرنے‘ ٹھوس اقدامات اور فصل کی پیداوار بہتر بنائے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہوگا۔ ٹھوس نمی کی سطح‘ موسم کی پیشگوئی اور فصل جیسے عوامل کا درست تجزیہ کرنے والا نظام نصب کئے بغیر بھی یہ ہدف حاصل نہیں ہوگا‘ اس بارے میں ضروری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے کہ کب اور کتنا پانی فراہم کرنا ہے۔ کیا ہم چولستان کو سرسبزکھیت میں تبدیل کر سکتے ہیں؟ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے جامع نقطہ نظر اور جامع حکمت عملی کی
 ضرورت ہے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھایا جائے‘ چولستان میں جہاں خشک حالات اور محدود آبی وسائل زراعت کیلئے اہم چیلنجز ہیں وہاں جدید تکنیک کو اپنانا سب سے اہم ہے۔ جب ہم چولستان کو پائیدار کھیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تو سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟  بلکہ یہ سوال ہے کہ ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب وی آر آئی ٹیکنالوجی اور جی پی ایس سینسروں کو مربوط کرنے میں مضمر ہے۔ اس کا جواب ٹیکنالوجی‘ اعداد و شمار پر مبنی زرعی تعلیم و تحقیق‘ آٹومیشن‘ زمین کی دیکھ بھال اور خطے کے خوشحال زرعی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے اُن اوزاروں (طریقوں) کو بروئے کار لانے کے غیر متزلزل عزم میں مضمر ہے۔ صحیح حکمت عملی کے ساتھ چولستان اس بات کی روشن مثال بن سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی اور پائیدار زرعی طریقے اپنا کر بنجر زمینوں کو زرخیز کھیتوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)