بحرانوں سے کاشت کاری تک

پاکستان میں غذائی قلت بڑھ رہی ہے۔ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے عوام نے آٹے کو انسانی زندگی پر ترجیح دی۔ اِس صورتحال میں فیصلہ سازوں پر لازم ہو جاتا ہے تو وہ زراعت اور غذائی خودکفالت کے حوالے سے قومی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لیں۔ اگر تاریخ سے کوئی سبق سیکھا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ طاقتور قدیم مصری سلطنت‘ جو اپنی شان و شوکت کیلئے مشہور تھی‘ آخر کار گندم کی قلت کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہوئی۔ اِس سے ملتی جلتی صورتحال کا پاکستان کو بھی سامنا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس کیلئے سالانہ تیس ملین ٹن سے زیادہ گندم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان صرف ستائیس ملین ٹن گندم پیدا کر رہا ہے‘ جس کی وجہ سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے اور اِس ایک درآمد سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پر سالانہ 2 ارب ڈالر کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ چند برس قبل تک پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا تھا جو اپنی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرنے کی وجہ سے اِسے برآمد کرتے ہیں اور جب کوئی جنس برآمد ہو رہی ہوتی ہے تو اُس سے زرمبادلہ کے قومی ذخائر میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بتیس فیصد پاکستانی غذائی عدم تحفظ اور ستائیس فیصد پاکستانی مہنگائی (افراط زر) کا سامنا کر رہے ہیں۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کیلئے معاشی تبدیلی ہی ملک و قوم کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کیلئے مستحکم اور خوشحال وطن چاہئے اور بالخصوص اگلے پچیس برس میں ترقی کی موجودہ رفتار کو تیز اور برقرار رکھنا ہوگا تاکہ غذائی تحفظ ممکن بنا سکیں جیسا کہ مفکر رومی نے کہا تھا کہ ”علاج اکثر بیماری کے اندر ہی ہوتا ہے“ پاکستان کے غذائی عدم تحفظ کا علاج بھی اِس مسئلے کے اندر ہی پوشیدہ ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان کی معاشی بحالی کا راستہ ’زرخیز زمین‘ کے تحفظ اور اِس کے درست استعمال میں ہے۔ سالانہ قومی آمدنی (جی ڈی پی) میں چھبیس فیصد حصہ زراعت کا ہے جس سے آبادی کے چوالیس فیصد افرادی قوت کا روزگار بھی وابستہ ہے اِس سے برآمدات کی صورت آمدنی بھی ممکن ہے الغرض زراعت پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے جو اس کے معاشی جسم میں ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔فصلوں کی پیداوار میں اضافے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی پیداوار ان کی صلاحیت سے بہت کم ہے۔ گندم کی پیداوار موجودہ ستائیس ملین ٹن سے بڑھ کر اَسی ملین ٹن تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس وقت ہماری گندم کی پیداوار صرف تین ٹن فی ہیکٹر ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں چار ٹن فی ہیکٹر اور چین میں چھ ٹن فی ہیکٹر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ چاول‘ گنے‘ مکئی اُور سرسوں جیسی فصلوں کی پیداوار بھی کم ہے۔ پیداواری صلاحیتوں کو حاصل کرنے کیلئے آسان حل ٹیکنالوجی اور جدید طریقوں سے زراعت ہے۔ بیجوں کی تصدیق‘کھاد کی درست مقدار کا استعمال اور پانی کے مؤثر انتظام کی بدولت فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان‘ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھتا ہے‘ یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف فصلیں بڑی مقدار میں حاصل کی جا سکتی ہیں جس سے قومی خود انحصاری کو فروغ مل سکتا ہے‘ اِس مرحلہ فکر پر یہ بات بھی ضروری ہے کہ کاشتکاروں کو آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے تیار کیا جائے تاہم گندم اور گنے پر حکومتی توجہ مرکوز رہی ہے جس کی وجہ سے دالوں‘ تیل دار اجناس اور سبزی جیسی دیگر اہم فصلوں کی ترقی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ اِس کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال اجناس کی درآمدات کرنا پڑ رہی ہیں۔ پاکستان کی پانی پر مبنی زرعی معیشت کا شمار دنیا کی سب سے کم موثر معیشتوں میں ہوتا ہے۔ اَسی فی صد سے زیادہ زیر کاشت زمین پانی سے بھرپور فصلوں (گیہوں‘ گنے‘ چاول اور کپاس) پر منحصر ہے‘ جو میٹھے پانی کے وسائل کا ترانوے فیصد استعمال کرتی ہیں‘ پانی کا یہ استعمال عالمی اوسط سے ستر فی صد زیادہ ہے۔پاکستان میں سالانہ چار ارب ڈالر کی خوراک ضائع ہو جاتی ہے جو کل پیداوار کے چھبیس فیصد کے مساوی ہے جبکہ تریالیس فی صد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے‘ آٹھ سو ارب روپے مالیت کی گندم ناکافی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہر سال ضائع ہو جاتی ہے  غیر مؤثر کولڈ چینز خراب ہونے والی اشیا کے ضیاع کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ ضرورت نقل و حمل اور اسٹوریج میکنزم میں سرمایہ کاری کی ہے جبکہ خوراک کے تحفظ کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور ایک مضبوط کولڈ چین اور مؤثر اناج کے ذخائر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مریم سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)