مستقبل پر نظر

علمی معیشت کی طرف منتقلی دنیا بھر کی قوموں کیلئے ’اہم چیلنج‘ اور مواقع کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ پاکستان کے معاملے میں یہ منتقلی پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ ہمیں پاکستان کو ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت میں تبدیل کرنے کیلئے زرعی اور صنعتی ترقی کے مختلف پہلوو¿ں پر مشتمل جامع منصوبے پر عملدرآمد کی ضرورت ہے‘ اس منصوبے میں سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ جدت طرازی اور پیداوار (ایس ٹی آئی پیز) کو کلیدی ستونوں کے طور پر شامل کیا گیا ہے جو معیاری تعلیم اور ماحولیاتی نظام کی بنیاد پر قائم ہو گا۔ علمی معیشت کے حصول کے لئے پاکستان کو پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے ’ایس ٹی آئی پی‘ کو منصوبہ بندی کی حکمت ِعملی میں ضم کرنا ہوگا۔ اس کے ثمرات یقینی بنانے کے لئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔ ’ایس ٹی آئی پی پالیسی‘ ایکشن پلان کے تابع ہونی چاہئے تاکہ مقررہ اہداف مقررہ وقت میں حاصل کئے جا سکیں۔ اِس مقصد کے لئے ’فارسائٹ ٹیکنالوجی اسسمنٹ اینڈ فورکاسٹنگ پرفارمنس (ٹی اے ایف پی)‘ نامی نگران تنظیمیں قائم کی جائیں۔ تمام سرکاری وزارتوں اور نجی شعبے کے کام کاج میں اِس نقطہ نظر کا انضمام ضروری ہے۔ اس کوشش میں عالمی معیار کے ’ایس ٹی آئی پی پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کا قیام بھی اہم ہے‘ جن اہم شعبوں پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی چاہئے ان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ جدید زراعت‘ معدنیات نکالنے اور اِن کی پروسیسنگ کے ساتھ متبادل توانائی کے منصوبے بھی شامل ہونے چاہئیں۔ اس طرح کے قومی نقطہ¿ نظر کے حصول کے لئے سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کے تعلیمی نظام کی مکمل تنظیم نو کی جائے تاکہ طلبہ کو سوچنے سمجھنے‘ شعور کے ساتھ حقیقی زندگی کے مسائل حل کرنے اور کسی بات یا نظریئے کو اندھا دھند قبول نہ کرنے کی ترغیب ملے۔ ’تنقیدی سوچ‘ کی حوصلہ افزائی اور جدت طرازی کو فروغ دیا جانا چاہئے تاکہ کسی درجے میں پاس ہونیوالا ہر طالب علم عملی زندگی میں ابھرتا ہوا ’کاروباری شخص‘ بن سکے جس کیلئے تدریس کے روایتی طور طریقوں سے انحراف کرنا ہوگا۔ میسیو اوپن آن لائن کورسز (المعروف ایم او او سیز) کا انضمام جو وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے معیاری تعلیم فراہم کرنے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ اِس سلسلے میں پاکستان نے بہت بڑی پیش رفت اس وقت کی جب مذکورہ ’ایم او او سیز‘ کا ایک مربوط سانچہ تیار کیا گیا اور اس پر عمل کرتے ہوئے سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر 73 ہزار مختلف کورسز متعارف کروائے گئے۔ چونکہ درس و تدریس کا روائتی طریقہ¿ کار تبدیل ہو رہا ہے اِس لئے دنیا بھر میں اعلی تعلیم یافتہ تکنیکی ماہرین کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی 67 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر ہے اور اِسے سرکاری و نجی شعبوں میں ہزاروں تکنیکی تربیتی سکولوں کی ضرورت ہے تاکہ ’تکنیکی علوم سے متعلق تعلیم‘ کے نظام کو مضبوط و فعال بنایا جا سکے لیکن ایسا صرف اسی صورت کارآمد ہوگا جب یہ تربیت عالمی معیار کے مطابق ہو اور یہ ایسی پیشہ ور تکنیکی تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرے جو ترسیلات زر کے ذریعے اربوں ڈالر زرمبادلہ کما سکے۔ پاکستانی طالب علموں کے لئے غیر ملکی انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کا آغاز سال دو ہزار پانچ میں کیا گیا لیکن دو ہزار آٹھ میں حکومت نے اِس حکمت عملی کو ترک کر دیا۔ پھر اِسے دوبارہ شروع کیا گیا اور ہری پور میں پاک آسٹریا فاچوشول ایک بہترین کاروباری یونیورسٹی قائم کی گئی جو ملک کی نو غیر ملکی یونیورسٹیوں (تین آسٹریا‘ ایک جرمنی اور پانچ چین سے) کے ساتھ قریبی تعاون رکھتی ہے۔ سیالکوٹ کے علاقے سمبڑیال میں بھی اسی طرح کی ایک یونیورسٹی بنائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی کاروباری یونیورسٹیوں کے ایک نیٹ ورک کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان تیزی سے روایتی معیشت سے ’مضبوط علمی معیشت‘ کی طرف منتقل ہو سکے۔ اس کوشش کے ساتھ بیرون ملک مقیم اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو اپنے ملک واپس آنے کی ترغیب دینے کا ایک پروگرام بھی ہونا چاہئے تاکہ پاکستان کے اندر اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیوں‘ تحقیقی مراکز اور صنعتوں کے قیام کی کوششوں کو خاطرخواہ کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے۔ ہمارے دفاعی اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی ضروریات کا ایک بڑا حصہ یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کو آو¿ٹ سورس کریں اور مقامی مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ کو فروغ دیں۔ اگر پاکستان مضبوط علمی معیشت چاہتا ہے تو اِس کے لئے نجی شعبے کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیتی اِداروں کے ساتھ درمیانے اور ہائی ٹیک مصنوعات کی مینوفیکچرنگ اور برآمد پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔ پاکستان کے علمی معیشت بننے کے سفر کے لئے کثیر الجہتی اور جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت‘ نجی شعبے‘ تعلیمی اداروں اور تارکین وطن کے درمیان تعاون کو فروغ دے تاکہ ترقی کی مکمل صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ علمی معیشت کا انتخاب اکیسویں صدی میں پاکستان کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق چیئرمین ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)