دو قابضین کی کہانی

فلسطین اور کشمیر دونوں ہی قبضے میں ہیں یہ دونوں ہی عالمی سیاست‘ انسانی بحرانوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے جاہلانہ رویئے کا شکار ہیں۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے مصائب پر کوئی بحث نہیں ہو رہی لیکن عالمی شتر مرغ پالیسی پر بحث جاری ہے جو کئی دہائیوں سے کشمیر میں مظالم پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے‘مردہ اور زخمی بے گناہ فلسطینی اور کشمیری بچوں کے دل دہلا دینے والے مناظر کسی بھی انسان کو جھنجھوڑ سکتے ہیں لیکن عالمی سنگین بے بسی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے عالم اسلام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے فلسطین کے خلاف اسرائیل کی نسل پرستی واضح ہوئی ہے۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے تقریباً بیس لاکھ فلسطینیوں کے لئے پانی‘ خوراک‘ ادویات‘ ایندھن‘ بجلی اور پناہ گاہیں بند ہیں۔ غزہ کی تقریبا آدھی آبادی ایسے بچوں پر مشتمل ہے جنہیں پانی‘ دودھ‘ خوراک‘ ادویات اور سب سے بڑھ کر ذہنی سکون کی اشد ضرورت ہے۔ یہ بچے قریبی سکولوں میں پناہ لے رہے ہیں جو یکساں غیرمحفوظ ہیں ‘ غزہ میں کام کرنے والے محدود ہسپتال بھی ہزاروں زخمیوں کی بلا تعطل آمد اور محدود طبی سامان کی وجہ سے ختم ہو چکے ہیں۔ غزہ کا پورا نظام تباہ ہو چکا ہے اور چونکہ یہ ایک گنجان آباد پٹی ہے اس لئے ہلاکتوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دریں اثنا مغربی میڈیا عادتاً متاثرین کو عسکریت پسند کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ حماس کے اقدامات کا تجزیہ کرنے کے لئے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے چھپن سالہ غیرقانونی قبضے کی تاریخ اور انہیں پناہ دینے والوں کے خلاف اسرائیل کی مسلسل بربریت میں مغربی مداخلت پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔فلسطینیوں کی مزاحمت کا موازنہ قابض اسرائیل کی جانب سے مسلط کی گئی بربریت سے نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ ستر دہائیوں سے فلسطین میں خونریزی جاری ہے۔ نسلوں نے اسرائیلیوں کو پناہ دینے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ بدلے میں انہیں زبردستی اُن کے اپنے وطن سے دور دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ فلسطینیوں کی نسلی صفائی کے سوا کچھ نہیں اور اگر وہ اپنی زمین کے لئے لڑتے ہیں تو انہیں عسکریت پسند قرار دے دیا جاتا ہے اور مغربی میڈیا کے لئے یہی مخمصہ ہے۔ اب تک اقوام متحدہ‘ او آئی سی اور دیگر ممالک جو فلسطین کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں یا تو خاموش ہیں یا سفارتی انداز میں کھیل رہے ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی مسلمان ملک فلسطینیوں کی حمایت کے لئے اُس طرح آگے نہیں بڑھا ہے جس طرح ہونا چاہئے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق روس بمقابلہ یوکرین تنازعے میں یوکرین پر قبضہ کیا گیا اور اُسے یرغمال بنایا گیا اور یوکرین کی جانب مغربی ہمدردی کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں لیکن اسرائیل بمقابلہ فلسطین کے معاملے میں‘ اِس ہمدردی کے کھیل کے قواعد تبدیل ہو گئے ہیں اور اِس نے مغرب کی واضح منافقت کو بے نقاب کیا ہے لیکن ہم ہر چیز کے لئے صرف مغرب کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ غور و فکر کا مقام ہے کہ بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لئے اب تک کیا کچھ کیا ہے؟ کیا ہم ہمیشہ سفارتی طور پر کام کریں گے؟ یا ہم کبھی عوام کی آواز کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے اور فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ نہ صرف اخلاقی طور پر بلکہ عملی طور پر بھی فلسطین کی حمایت بطور شرعی ذمہ داری ہم سب پر واجب ہے۔ کھوکھلے بیانات سے فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کم نہیں ہوگا بلکہ اِس کے لئے حقیقی حمایت کی ضرورت ہے۔ یہ کچھ بنیادی سوالات ہیں جو تاریخ پوچھے گی اگر ہم اس کے صحیح رخ پر کھڑے نہیں ہوں گے۔آج فلسطینیوں کی نسل کشی دیکھنے کے بعد ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کو بے بسی اور مصائب کا وہی درد محسوس ہو رہا ہے جس طرح بھارت نے کشمیر پر اپنی جارحیت اور عداوت مسلط کر رکھی ہے۔ اگر دنیا اس طرح کے مظالم میں شتر مرغ کی طرح برتاو¿ کرتی رہی اور متاثرین کو خود ہی چھوڑ دیتی رہی تو یہ دنیا جلد ہی ظلم کا مرکز بن جائے گی۔ بھارت کے وزیراعظم مودی اور اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا نقطہ نظر ایک جیسا ہے اور اِنہوں نے نفرت اور جبر کو وحشیانہ طور پر پھیلایا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی نسل کُشی ہے‘ نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے‘ ان مقامات کی ڈیموگرافی تبدیل ہے جہاں وہ قابض ہیں‘ مغربی بلاک کی حمایت حاصل کی جا رہی ہے اور انتخابات میں متاثرین کا کارڈ استعمال کیا گیا ہے۔ دونوں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا اور انسانی حقوق کی آوازوں کو دبایا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کے لئے بڑی طاقتوں سے اجازت مانگ رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی عملی مدد یا مدد نہیں بھیجی جا سکی ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھی ایسا ہی دیکھا گیا۔ کم از کم غزہ کی پٹی میں پھنسے ہوئے بچوں کو بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔ ان کا خون کسی بھی دوسری نسل کی طرح سرخ ہے۔ مسلمانوں سے دنیا بھر میں جاری امتیازی سلوک ختم ہونا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مصطفی عبداللہ بلوچ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)