دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو ’قابل ِمذمت‘ ہے اس مو¿قف کی رو سے حماس یا اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں پر حملے ناقابل قبول ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اسرائیل ایک ریاست ہے‘ جس پر مختلف ذمہ داریاں عائد ہیں ایک اور واضح فرق یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست نہ صرف حملہ آور ہے بلکہ وہ غزہ کی پٹی کے شمالی حصے سے دس لاکھ بے گناہ فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا حکم دے کر جبری بے دخلی کی اپنی پالیسی کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اس علاقے پر مزید قبضہ کرنے کے بہانے کے طور پر انتقامی کاروائیاں کی جا سکیں غزہ کے اسرائیلی محاصرے کے دوران خوراک‘ ایندھن اور پانی ختم ہونے کے بعد علاقے میں اقوام متحدہ کے ترجمان جبری انخلا¿ کے ”سنگین انسانی نتائج“ سے خبردار کر چکے ہیں کیونکہ اسرائیل کے سر پر خون سوار ہے‘ وہ وحشیانہ زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے‘فلسطینیوں کےلئے اسرائیلی جبر کوئی نیا تجربہ نہیں‘ رہا ہے‘ اقوام متحدہ کے اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ اب ’زمین پر جہنم‘ بن چکا ہے۔اسرائیل بے لگام طاقت رکھتا ہے‘ مشرق وسطیٰ میں موجودہ صورتحال میں جو چیز خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی بنیادوں کو ہلا دیا گیا ہے‘ جب حقوق ادا نہیں ہوتے تو حقوق غصب کرنے والے اپنی قانونی حیثیت بھی کھو دیتے ہیں اس تناظر میں جس چیز کو
جنگ کی وجہ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے‘ اسے کسی اور کی وجہ کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ یہ گہری عالمی بدنظمی کی ترکیب ہے‘ جہاں قانون اقتدار کے بے لگام قوانین کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے‘ کشمیر اور فلسطین دونوں اقوام متحدہ کے قدیم ترین تنازعات ہیں۔ جیسے جیسے یہ بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ خطے کا استحکام بھی داو¿ پر لگا ہوا ہے اگرچہ بہت سے ممالک نے تشدد کی روک تھام کو یقینی بنانے کی کوششیں کی ہیں لیکن یہ پہلے ہی دنیا کے سفارتی اور فوجی ہیٹ میپ دونوں کو تبدیل کر رہا ہے۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن کے نامہ نگاروں کی بہادری کی وجہ سے یہ بیانیہ مکمل طور پر یک طرفہ ہے اور اسرائیل پر حملے پر حماس سے زیادہ غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے وحشیانہ ظلم و ستم کی مغربی ذرائع ابلاغ میں شاذ و نادر ہی مذمت کی جاتی ہے‘ غزہ کی آبادی فوج نہیں لیکن حماس کے اسرائیل پر مسلح حملے کو مسلم دنیا بڑی حد تک اسرائیل کے دہائیوں کے بڑھتے ہوئے پرتشدد قبضے کے جواب کے طور پر دیکھ رہی ہے۔فلسطین کا مسئلہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سامنے آیا جب من مانے نقشوں کے ذریعے اِس مسئلے کا جبری حل ڈھونڈا گیا۔ طاقتور سلطنت عثمانیہ کے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا اختتام اس جنگ میں نئی جانشین ریاستوں کے قیام کے ساتھ ہوا‘ جس میں اتاترک کا جدید ترکی شامل ہے‘ لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ میں فلسطین میں یہودی قومی وطن کی شقیں شامل تھیں جس میں فلسطینیوں کے خیالات کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ بحیرہ¿ روم اور دریائے اُردن کے درمیان اس علاقے کو اپنا مسکن کہنے والے مقامی عرب عوام نے 1948ءمیں من مانی ’تقسیم‘ کو کبھی قبول نہیں کیا اور عرب اسرائیل جنگ‘ جس میں پانچ عرب ریاستیں شامل تھیں اردن‘ عراق‘ شام‘ مصر اور لبنان نے 1949ءمیں مزید وسیع پیمانے پر تنازعات کو جنم دیا۔ مختصر یہ کہ برسوں کے دوران اسرائیل طاقتور ممالک کی پشت پناہی والی ریاست بن گیا اور کئی دہائیوں سے جاری پرتشدد قبضے کے بعد فلسطین پر حملہ‘ قبضہ کرنے اور فلسطین کے حجم میں کمی کے لئے چھوڑ دیا گیا‘ جس میں یہودی بستیوں کی منصوبہ بندی توسیع کی گئی جو کبھی لاکھوں مقامی فلسطینیوں کا مسکن ہوا کرتی تھی۔ 1967ءمیں چھ روزہ جنگ‘ جس میں مصر‘ شام اور اردن نے اسرائیلی افواج سے لڑائی کا اختتام کیا۔ غزہ کی پٹی‘ مغربی کنارے اور جزیرہ نما سینا
میں اسرائیل نے بڑے زمینی رقبے پر قبضہ کر لیا۔ یہودی جو قدیم آبادکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اپنی سرزمین کو عربوں کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتے‘حالیہ صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل (صیہونی ریاست) کو مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے‘ امریکہ‘ جو ان حالات میں اہم کھلاڑی ہے‘ کے پاس یقینا بہت سے آپشنز ہیں لیکن فی الحال‘ اس کی فوجی اور سیاسی پوزیشن واضح ہے۔ امریکی وزیر خارجہ خطے میں موجود ہیں اور سفارتی حل تلاش کر رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے تاہم حالات آسانی سے ’معمول‘ پر نہیں آئیں گے۔ مسلم دنیا میں پاکستان نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی یک جہتی کا اعلان کیا ہے لیکن اس منظرنامے میں سعودی عرب کا ردعمل اہم ہے‘اب تک سعودی عرب نے تشدد کی واضح مذمت کی ہے جبکہ مشکل کی اس گھڑی میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور دو ریاستی حل کی وکالت کر رہے ہیں‘ جب تک اسرائیلی اور فلسطینی براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے‘ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کو فروغ نہیں ملے گا۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ اَبوالحسن اِمام)