توجہ طلب (دیگر) اَمور

پاکستان میں حکومت کی زیادہ تر توجہ روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ پر مرکوز ہے اگرچہ یہ شرح بلاشبہ ملک کے معاشی منظر نامے میں اہمیت کی حامل ہے لیکن پاکستان کے بے شمار دیگر معاشی اور مالی چیلنجوں سے نمٹنا بھی یکساں ضروری ہے جس کے لئے توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔ یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ کسی ایک شعبے پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے‘ جو ایکس چینج ریٹ سے بڑھ کر ہو اور بجٹ خسارے پر خصوصی زور دینے کے ساتھ مختلف اہم اشاریئے کو مدنظر رکھتا ہو۔ روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ نے بہت زیادہ توجہ حاصل کر رکھی ہے۔ یہ تعین وسیع تر معاشی منظرنامے میں کئی حقائق کو نظر انداز کرنے کا باعث ہے۔ پاکستان کی معاشی صحت افراط زر‘ بے روزگاری‘ قومی قرضے‘ تجارتی توازن اور جی ڈی پی کی شرح نمو جیسے اشارئیوں کے کئی پیچیدہ پہلو ہیں۔ ایک اہم اشاریہ جو کسی بھی دوسرے کے مقابلے میں زیادہ توجہ کا مستحق ہے وہ بجٹ خسارہ ہے‘ سادہ لفظوں میں بجٹ خسارہ حکومتی محصولات اور اخراجات کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ جب اخراجات محصولات (آمدن) سے زیادہ ہوتے ہیں تو یہ بجٹ کا خسارہ کہلاتا ہے۔ مسلسل اور بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ حکومت کو ضرورت سے زیادہ کرنسی نوٹوں (رقم) کی چھپائی پر مجبور کرتا ہے۔ رقوم کی فراہمی میں اس وسیع پیمانے پر توسیع کے نتیجے میں افراط زر اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی جیسے متعدد منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔ مسلسل بلند بجٹ خسارے کی وجہ سے قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور قومی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بجٹ خسارہ درحقیقت سو معاشی خرابیوں کی بنیادی وجہ ہے۔بجٹ خسارے اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ حکومت کا بجٹ خسارہ آٹھ ہزار دو سو ارب روپے ہے جو اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اس کے اخراجات اس کی آمدنی سے کہیں گنا زیادہ ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت نے بڑے پیمانے پر قرضے لے رکھے ہیں‘ بنیادی طور پر بانڈز کے اجرأ کے ذریعے بھی قرضے لئے جاتے ہیں جن کی مالیت کھربوں روپے ہے۔ رقم کی فراہمی میں اس خاطر خواہ اضافے نے کرنسی کی وقعت کم کی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر (مہنگائی) کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔ گردش میں کرنسی کی زیادتی کرنسی کے ہر یونٹ کی قدر کو کم کرتی ہے کیونکہ معیشت کے اندر دستیاب اشیاء اور خدمات کے سلسلے میں کرنسی کا سرپلس ہوتا ہے نتیجتاً پاکستانی روپے کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انتظامی اقدامات‘ جیسا کہ کرنسی کی سمگلنگ کا مقابلہ کرنے کی کوششیں اور ایکس چینج کمپنیوں کی جانچ پڑتال میں اضافے نے کچھ مثبت نتائج حاصل کئے ہیں تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ انتظامی اقدامات کی فطری حدود ہیں اور یہ پائیدار حل نہیں اور یہ مستقل انتظامی اقدامات جیسی جامع پالیسی کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ کیا بجٹ خسارے کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی قابل عمل قومی پالیسی موجود ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی توجہ روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ کے تعین سے ہٹا کر معاشی چیلنجوں کے بارے میں زیادہ جامع نقطہ نظر اپنائے اگرچہ انتظامی اقدامات کے کچھ مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں لیکن یہ علاج نہیں۔ بجٹ خسارے سے نمٹنے کے لئے ہمیں ایک مضبوط اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایسا کرکے ہی ہم پاکستان کے زیادہ مستحکم، لچکدار اور خوشحال معاشی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)