بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کے دس سال

چین کے صدر شی جن پنگ سترہ اور اٹھارہ اکتوبر کو بیجنگ میں بین الاقوامی تعاون کےلئے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم (بی آر ایف) کا افتتاح کریں گے یہ اجتماع چین کے کیلنڈر پر اہم کثیر الجہتی سفارتی معاملات میں سے ایک ہے‘ جو عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ فورم کا عنوان ”اعلیٰ معیار کا بیلٹ اینڈ روڈ تعاون: مشترکہ ترقی اور خوشحالی کیلئے ایک ساتھ“ رکھا گیا ہے جس میں ایک سو تیس سے زائد ممالک اور تیس بین الاقوامی تنظیموں کے مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ اِس فورم میں ہونے والی بات چیت تعاون کو مزید فروغ دینے سے متعلق ہو گی جس میں رابطے‘ پائیدار ترقی اور ڈیجیٹل معیشت جیسے امور شامل ہیں۔ مذکورہ فورم میں تجارت‘ عوامی سطح پر رابطے‘ انسداد بدعنوانی کی کوششیں‘ مقامی تعاون اور سمندری تعاون جیسے مرکزی نکات بھی بات چیت کا عنوان ہوں گے۔ توقع ہے کہ فورم کی حاضری ابتدائی پیشگوئیوں سے زیادہ ہوگی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیچیدہ عالمی جغرافیائی اور معاشی منظر نامے کی وجہ سے فورم عالمی توجہ حاصل کرنے کرے گا۔ بی آر ایف یورپ اور مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے ساتھ ساتھ سست عالمی معیشت سمیت کثیر الجہتی عالمی چیلنجوں کے پس منظر میں منعقد ہو رہا ہے۔ ’بی آر ایف‘ روڈ اینڈ بیلٹ انشی ایٹو کی مشترکہ ترقی میں مصروف ممالک اور خطوں کی ترقی کیلئے کثیر الجہتی پلیٹ فارم ہے۔ یہ ماضی کی کامیابیوں کا جائزہ لینے اور مستقبل کے تعاون کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کیلئے بھی یکساں اہم ہے۔ گزشتہ بی آر ایف جو سال دوہزاراُنیس میں منعقد ہوا تھا‘ کورونا وبا سے پہلے ہوا تھا۔ یوکرین تنازعہ اور اسرائیل فلسطین مسئلے جیسے اہم عالمی چیلنجوں کے پس منظر میں‘ بی آر ایف شورش زدہ دنیا میں استحکام کیلئے مشعل راہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بین الاقوامی اور چینی ماہرین بین الاقوامی تعاون کو تقویت دینے میں خاطر خواہ کامیابیوں کی توقع کر رہے ہیں۔ یہ فورم بی آر آئی میں جوش و جذبے اور اعتماد کے ساتھ تعلقات اور عالمی تعاون کیلئے چین کے مستقل عزم کو بھی اجاگر کرےگا۔ کہا جا رہا ہے کہ سال دوہزارتیس تک‘ چین کی کوششوں سے عالمی آمدنی میں قابل ذکر اضافہ ہوگا اور76 لاکھ انتہائی غربت کے چنگل سے باہر نکلیں گے۔ یہ اعداد و شمار ’بی آر آئی‘ کے ذریعے بین الاقوامی تعاون اور ترقی کیلئے چین کے عزم اور اثر و رسوخ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) نے چین کی عالمی تجارت میں اہم باب کا اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران‘ چین نے تبدیلی کے دور کا آغاز کیا ہے۔ قابل ذکر فلیگ شپ منصوبے‘ بشمول ممباسا نیروبی ریلوے‘ چین لاو¿س ریلوے اور جکارتہ بانڈونگ تیز رفتار ریلوے‘ نہ صرف مکمل ہوچکے ہیں بلکہ مکمل طور پر آپریشنل (فعال) بھی ہیں۔ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق سال دوہزارتیس تک بی آر آئی سے سالانہ عالمی آمدنی ایک اعشاریہ چھ کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی جو عالمی جی ڈی پی کے ایک اعشاریہ تین فیصد کے مساوی ہے کیونکہ نقل و حمل کی راہداریوں اور اقتصادی مراکز کا نیٹ ورک مسلسل پھیل رہا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے علاو¿ہ شریک ممالک میں ان گنت شہریوں کے معیار زندگی بلند کرنے کے وسیع امکانات اِس میں موجود ہیں۔ بی آر آئی کے آغاز سے لے کر اب تک مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تشکیل کا تصور محض تصوراتی نہیں رہا بلکہ یہ حقیقت کا رخ اختیار کر چکا ہے۔ دنیا چین کے اِس دعوے کو تسلیم کر رہی ہے کہ ترقی صرف منتخب مغربی ممالک کا حق نہیں اور نہ ہی ترقی اُن کے خصوصی اختیارات کا حصہ ہے بلکہ ترقی تو ہر ملک و قوم کا فطری حق ہے جس تک تمام ممالک کو رسائی حاصل ہونی چاہئے۔ حالیہ برسوں میں کچھ مغربی عہدیداروں اور میڈیا اداروں کی جانب سے ’بی آر آئی‘ کی ٹھوس کامیابیوں کو کمزور دکھانے کی کوششوں کے باوجود‘ جن میں نام نہاد متبادل منصوبے بھی متعارف کروانا شامل ہے ممالک‘ خطوں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ’بی آر ایف‘ کیلئے زبردست جوش و خروش اور توقعات بڑھ رہی ہیں اور بی آر آئی مقبولیت اور پائیدار اعتماد کی نشاندہی کر رہا ہے۔ تیسرا بی آر آئی فورم‘ جس کی توجہ عالمی تعاون‘ ترقی میں اضافے کیلئے چین کے غیر متزلزل عزم اور چین کی جدید کاری کے مرکوز توجہ آئینہ دار ہے اور اِس پر متعدد ممالک نے اعتماد کا اظہار کیا ہے جس کے فوائد سے چین بھی مستفید ہو رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)