آبادی اور این ایف سی

حال ہی میں اعلان کردہ ساتویں مردم شماری کے نتائج کے مطابق‘{ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے جو اس سے قبل 2017ءکی مردم شماری میں 20 کروڑ سے زیادہ تھی یعنی گزشتہ چھ برس کے دوران آبادی میں تین کروڑ تیس لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ 1998ءمیں جبکہ پاکستان کی آبادی 131ملین سے کم تھی اِس میں سالانہ 2.4 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے جو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت آبادی میں اضافے کی زیادہ شرح ہے۔اُنیس سو اکیاون (قیام پاکستان کے چار سال بعد) تک‘ اُس وقت کے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی تین کروڑ تیس لاکھ (تینتیس ملین) تھی۔ جس کے بعد سے سے ملک کی آبادی میں سات گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ ’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2022ئ‘ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ سال 2050ءتک پاکستان کی آبادی چھتیس لاکھ ساٹھ ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اُس وقت قریب 2 کروڑ 40 لاکھ افراد بیروزگار ہوں گے۔ جس سے سماجی استحکام اور ملک کی سلامتی کو نئے خطرات لاحق ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کو اُن ممالک کی فہرست میں شمار کیا ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی میں اضافے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے اِس کا مطلب کیا ہے؟پاکستان میں ہر سال 57 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جنہیں خوراک‘ صحت کی دیکھ بھال‘ رہائش اور تعلیم سمیت دیگر ضروریات فراہم کی جانی چاہئیں۔ اگر ہم صرف تعلیم ہی کو لیں تو اِنہیں تعلیم فراہم کرنے کے لئے ہر سال کم از کم تینتیس ہزار نئے سکولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ قریب 2 کروڑ 30 لاکھ (23ملین) بچے پہلے ہی سکول سے باہر ہیں جنہیں سکولوں میں داخل کرنے کے لئے ہزاروں اضافی سکولوں چاہیئں (موسمیاتی) تبدیلی بھی درپیش ہے جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ اور پانی کی قلت کی صورتحال آج سے پہلے کبھی بھی اِس قدر شدید نہیں دیکھی گئی۔ قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5200 مکعب میٹر سے زیادہ تھی جو وقت کے ساتھ کم ہو کر 900 مکعب میٹر فی کس سے بھی کم ہے۔ پاکستان اُن دس ممالک میں شامل ہے جہاں کی آبادی کو صاف پانی تک سب سے کم رسائی حاصل ہے۔ درحقیقت پاکستان دنیا کے اُن سترہ ممالک کی فہرست میں چودہویں نمبر پر ہے جہاں کے رہنے والوں کو ممکنہ طور پر پانی کی انتہائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آبادی کا دباو¿ رہائشی سہولیات و ضروریات پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ہر سال تقریباً 14لاکھ نئے مکانات (ہاو¿سنگ یونٹس) کی ضرورت ہے جبکہ ہاو¿سنگ یونٹوں کی موجودہ کمی کی بات نہ بھی کی جائے۔ نئے ہاو¿سنگ یونٹس کی تعمیر کے لئے زیادہ سے زیادہ زرعی زمینوں کا استعمال کیا جائے گا یعنی زیادہ سے زیادہ زرعی رقبہ اور باغات ختم ہو جائیں گے۔ درحقیقت آبادی میں اضافے نے ملک میں خوراک‘ صحت اور تعلیم کی بحرانی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اپنے ہاں آبادی میں اضافے کی شرح کم کرنے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔آبادی کا تعلق قومی وسائل (آمدنی) کی تقسیم سے بھی ہے جو قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) سے جڑے قومی سیاسی بیانیہ کا جز بھی ہے۔ این ایف سی فارمولے کے مطابق وفاقی آمدنی کا بیاسی فیصد آبادی کی بنیاد پر صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ آبادی کے علاو¿ہ قومی وسائل کی تقسیم کے دیگر اشارئیوں میں غربت اور پسماندگی (10.3 فیصد) محصولات کے پیداوار اور وصولی کا تناسب (5 فیصد) اور آبادی کی کثافت (2.7 فیصد) کو بھی دیکھا جاتا ہے اور اِن سبھی پہلوو¿ں سے قومی سیاسی بیانیہ تشکیل پاتا ہے جو سردست یہ ہے کہ ’زیادہ آبادی کی بنیاد (جواز) پر مجموعی قومی آمدنی سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے۔‘ یہ وہ بیانیہ ہے جس نے آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک اپنی وفاقی اکائیوں میں آبادی کی بنیاد پر اِس قدر سرمایہ تقسیم نہیں کرتا جتنا پاکستان ہوتا ہے۔ پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جہاں سیاست اور معیشت کی نظریں آبادی اور آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم پر مرکوز ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی 266 اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی میں نمائندگی صرف سولہ نشستوں پر مبنی ہے لہٰذا اِس صوبے کی سیاسی جماعتیں پنجاب اور سندھ جیسے آبادی کے لحاظ سے بڑے شہروں کے مقابلے کم توجہ حاصل کر پاتی ہیں کیونکہ اُن کی بلوچستان کے مقابلے قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں ہیں۔آبادی نے جمہوریت اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فی الوقت قومی سلامتی کو اتنا خطرہ سرحد پار سے نہیں ہے جتنا سرحدوں کے اندر بڑھتی ہوئی آبادی اور آب و ہوا کی تبدیلی سے ہے۔ اِس انتخابی سال میں سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے جس میں آبادی میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کےلئے حکمت عملی اور اِن مسائل کے عملی حل سرفہرست ہونے چاہیئں کیونکہ اگر اب بھی توجہ نہ دی گئی وہ دن زیادہ دور نہیں جب یہ مسائل ناقابل برداشت ہوجائیں گے۔(بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)