پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں زبردست کمی نے مہنگائی کی لپیٹ میں آئے عام آدمی کو موقع دیا ہے کہ وہ راحت کا سانس لے‘یہ وہی عوام ہے جس نے معاشی مشکلات اور بے پناہ مالی مشکلات کے سوا آج تک کچھ نہیں دیکھا‘اس اقدام سے عوام کی نظروں میں نگران حکومت کی ساکھ یقینا بہتر ہوئی ہے اور ریاست کے ان عناصر کےلئے ایک موافق رائے پیدا ہوگی جو موجودہ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل ہو رہا ہے یا نہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے تاجروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کریں کیونکہ اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی کر دی گئی ہے جب بھی حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتی ہے تو ہمارے تاجر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں فوراً اضافہ کر دیتے ہیں لیکن جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی ہو تو اِس کا اثر مارکیٹ یا منڈی پر فوراً دیکھنے میں نہیں آتا آخر ایسا کیوں ہے؟ ایک عام شہری کےلئے چاول سے لے کر آٹے تک‘ سبزی سے لے کر پھل تک اور کھانا پکانے کے تیل سے لے کر دال تک‘ ہر چیز آج بھی اتنی ہی مہنگی ہے جتنی
تیل کی قیمتوں میں کمی سے پہلے تھی‘کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تاجر ”طاقتور پریشر گروپ“ ہیں جو نہ تو معیشت کو دستاویزی شکل دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے ٹیکسوں کا منصفانہ حصہ ادا کرنے کےلئے تیار ہیں جب بھی حکومت کوئی دستاویز تیار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ان کی انجمنیں حرکت میں آ جاتی ہیں لیکن جب انکے ساتھی تاجر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود لوگوں سے اشیائے ضروریہ اور اجناس کےلئے بہت زیادہ رقم وصول کرتے رہتے ہیں تو یہ تاجر تنظیمیں کوئی کاروائی نہیں کرتیں تاجروں کی مضبوط لابی قانون سازی کے ایوانوں میں بھی موجود ہے اور یہ تقریباً ہر سیاسی جماعت پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد روایتی طور پر مسلم لیگ (نواز) کی حامی رہی ہے لہٰذا اگر سابق وزیر اعظم کی پارٹی واقعی کاکڑ حکومت کو اس ملک کے چوبیس کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اِسے ”بے لگام تاجروں“ کو لگام دینے کےلئے کوشش کرنا ہوگی جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے اکثر یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ بہت سے تاجر اپنے ملازمین سے زیادہ کام لیتے ہیں اور اُنہیں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم سے کم اُجرت نہیں دی جاتی‘ یہ انتہائی غیرانسانی سلوک ہے کہ کسی شخص سے 12 گھنٹے کام لیا جائے لیکن صنعتی مزدوروں کی اکثریت 12 گھنٹے کام کرتی ہے جبکہ اُنہیں مزید دو سے تین گھنٹے آمدورفت میں لگتے ہیں اِس طرح پندرہ گھنٹے ہر روز جاگنے کی وجہ سے مزدوروں کی ذہنی و جسمانی صحت خراب ہوتی ہے کم اجرت اور لیبر قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا پاکستان میں غربت کی بڑی وجوہات میں شامل ہے مثال کے طور پر تصور کریں کہ اگر صنعتی ادارے‘ کاروباری ادارے اور تجارتی ادارے اپنے کارکنوں کو ہیلتھ انشورنس‘ سالانہ بونس‘ لائف انشورنس اور دیگر سہولیات فراہم کرنا شروع کردیںتو اس سے اُن کے گھریلو اخراجات‘ خاص طور پر اُن کے خاندانوں کےلئے صحت کی دیکھ بھال میں کمی آسکتی ہے اسی طرح کام کاج کی جگہوں میں سالانہ تنخواہ کے ساتھ چھٹی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا جس پر مہذب دنیا میں لازمی عمل درآمد کیا جاتا ہے‘ ماضی میں صنعتیں مزدوروں کےلئے ہاو¿سنگ کالونی
‘ ڈسپنسری یا ہسپتال اور سکول یا پارک قائم کرتی تھیں ان میں سے کچھ صنعتیں شاید آج بھی موجود ہوں لیکن وقت کےساتھ صنعتی اور کاروباری طبقات نے مزدوروں کا احترام کرتے ہوئے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں‘ اگر حکومت واقعی عوام کی مدد کرنا چاہتی ہے اور اِنہیں مستقل ریلیف بھی دینے کی خواہاں ہے تو یہ ہدف معیشت کی مجموعی صورتحال کو بہتر بنائے بغیر ممکن نہیں اور اس طرح کی بہتری کا بہت زیادہ انحصار پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور ان کی پیش کردہ تجارت اور معدنی دولت سے فائدہ اٹھانے پر ہے لہٰذا ہمیں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے ساتھ ہمسایہ ممالک سے سستے داموں اشیائے خوردونوش درآمد کرنے کے امکانات سے بھی بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے جس سے پاکستانیوں کو بے رحمانہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے کچھ ریلیف مل سکتاہے اگر حکومت واقعی عوام کےلئے طویل مدتی ریلیف یقینی بنانا چاہتی ہے تو اسے ”غیر روایتی فیصلے“ کرنے ہوں گے‘ جن میں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا بھی شامل ہے اور یہ طویل مدتی راحت کی ترکیب ہو سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)