مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی بیسویں صدی میں پھنسی ہوئی ہیں جبکہ ووٹرز نے اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہوئے نئے سیاسی نظریات اور طرز اقدار کو اپنا لیا ہے پاکستان کی اِن دو بڑی سیاسی جماعتوں اور رائے دہندگان (ووٹرز) کے درمیان بڑھتی ہوئی یہ تفریق اب ’ناقابل تردید حقیقت‘ بن چکی ہے‘ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ وہ اِس بدلتے ہوئے منظرنامے کے مطابق خود کو ڈھالے اور اپنی اصلاح کرے جس کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی پر ایسے رہنماو¿ں کا غلبہ ہے جن کی جڑیں بیسویں صدی کی روایتی سیاست میں ہیں‘ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی روایتی ڈھانچے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جو بیسویں صدی کے نظریات پر قائم ہے ‘نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی اکیسویں صدی کے ووٹروں کی تیزی سے بدلتی ہوئی امنگوں اور اقدار سے ہم آہنگ ہونے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔یہ حقیقت اِس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتائج کی تشکیل میں بھی نوجوان ووٹرز (رائے دہندگان) کا اہم کردار ہوگا۔ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی جن نظریات اور حکمت عملیوں کا فروغ چاہتے ہیں وہ ایک مختلف دور کی ضرورت کے مطابق تشکیل دیئے گئے تھے۔ یہ نظریات اور پالیسیاں اکیسویں صدی کے پاکستان کو درپیش معاشی اور سماجی چیلنجوں کو حل نہیں کر سکتیں۔ موروثی سیاست پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی ایک خصوصیت بنی ہوئی ہے‘ جہاں سیاسی طاقت موورثی سیاست پر انحصار کر رہی ہے وقت ہے کہ اِس بات کا احساس کیا جائے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پاکستان کے رائے دہندگان کو عالمی خیالات اور رجحانات سے جوڑ دیا ہے‘ ان کی سوچ کے افق کو وسعت دی ہے اور انہیں وسیع نقطہ نظر سے روشناس کرایا ہے۔ اکیسویں صدی کا پاکستانی ووٹر ترقی‘ شمولیت اور سماجی انصاف کا خواہاں ہے۔ اکیسویں صدی کا پاکستانی ووٹر ایک ایسا طرز حکمرانی چاہتا ہے جو شفافیت اور احتساب کا مجموعہ ہو۔ اکیسویں صدی کا ووٹر مطالبہ کر رہا ہے کہ اُسے پرانے سیاسی نظام سے نجات دلائی جائے اور وہ
سیاسی ڈھانچہ تبدیل کیا جائے جو نوجوانوں کی توقعات کو پورا کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کو رائے دہندگان کی بدلتی ہوئی ضروریات اور اقدار کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے کیسویں صدی کے سماجی انصاف اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پالیسیاں تشکیل دی جانی چاہئیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو فیصلہ سازی کے عمل اور قیادت کے عہدوں میں نوجوان رہنماو¿ں اور آوازوں کو فعال طور پر شامل کرنا چاہئے مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کو اکیسویں صدی کے رائے دہندگان کے ساتھ منسلک رہنے کے لئے اپنا نقطہ نظر تبدیل اور اِسے جدید بنانا ہوگا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو نوجوانوں کی اُن ضروریات اور امنگوں کو پورا کرنا ہوگا جو اُنہوں نے سیاسی جماعتوں سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو معاصر اقدار کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو فرق و تفریق ختم کرنا ہو گی اور اگر یہ دونوں جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کی متمنی ہیں تو اِنہیں ”کم سے کم“ اکیسویں صدی میں پاکستان کی متنوع آبادی کی حقیقی نمائندگی کے معیار پر پورا اُترنا ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔