شعبہ صحت اور ترجیحات

فوڈ سیفٹی کا تعلق آلودگی روکنے اور صحت کو خطرے میں ڈالے بغیر کھانے کو ذخیرہ‘ تیار کرنے اور استعمال کو یقینی بنانے کے طریقوں پر عمل پیرا ہے‘ پیک شدہ کھانوں نے کھانے پینے کی اشیاءکے استعمال کے طریقے میں انقلاب برپا کر رکھا ہے‘ جس سے سہولت‘ طویل شیلف لائف اور اکثر معیاری پروسیسنگ اور ہینڈلنگ کی وجہ سے حفاظت یقینی ہوئی ہے۔ تازہ کھانوں کے برعکس جو آسانی سے جراثیم پھیلنے کی وجہ بن سکتے ہیں‘ پیک شدہ کھانے کوالٹی کنٹرول اقدامات سے گزرنے کی وجہ سے نسبتاً محفوظ سمجھے جاتے ہیں اور اِن میں خارجی آلودگی شامل نہیں ہوتی۔ فوڈ پیکیجنگ کی وجہ سے ماحولیاتی عوامل جیسا ہوا‘ نمی اور روشنی اثرانداز نہیں ہوتی اور کھانے کا معیار برقرار رہتا ہے۔ اِس کے علاوہ پیک شدہ کھانوں پر لیبل صارفین کو اجزا‘ غذائی تغذیہ کی مقدار اور اُن کی میعاد ختم ہونے جیسی معلومات بھی فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سب وہ امتیازی خصوصیات ہیں جن سے خوراک کی حفاظت میں اضافہ ہوتا ہے اور جدید صارفین کی سہولت و اعتماد کی ضرورت بھی پورا ہوتی ہے تاہم سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا اور پیکٹوں میں بند ایسے کھانے بھی ملتے ہیں جو فوڈ سیفٹی کے معیار پر پورا نہیں اُترتے۔ انہیں ”گرے مارکیٹ اکنامی“ کہا جاتا ہے۔ گرے مارکیٹ ڈسٹری بیوشن چینلز کے ذریعے درآمد شدہ سامان کی تجارت کرتی ہے جو قانونی ہے لیکن غیر ارادی ہیں یا اصل مینوفیکچرر یا برانڈ کی طرف سے غیر منظور شدہ ہوتے ہیں۔ بلیک مارکیٹ کی مصنوعات کے برعکس‘ جو زیادہ تر غیر قانونی یا جعلی ہوتی ہیں‘ گرے مارکیٹ کی اشیا قانونی ہوتی ہیں تاہم وہ کسی خاص خطے میں فروخت کے لئے نہیں ہوتیں۔ فوڈ سیکٹر میں گرے مارکیٹ کے داخلے نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے اگرچہ الیکٹرانکس یا لگژری اشیاءبھی اِسی زمرے میں خدشات پیدا کرتی ہیں تاہم کھانے کی اشیا صحت کے اضافی مضمرات رکھتی ہیں۔ جب کھانے کی مصنوعات کو کسی مخصوص مارکیٹ کے لئے تیار کیا جاتا ہے تو وہ اس خطے کی غذائی‘ ثقافتی اور ریگولیٹری ضروریات پورا کرنے کے لئے تیار کئے جاتے ہیں تاہم گرے مارکیٹ چینلز کے ساتھ‘ ایک خطے کے لئے مطلوبہ مصنوعات دوسرے خطے میں فروخت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر صحت کے خدشات‘ ثقافتی غذائی پابندیوں یا مختلف فوڈ سیفٹی معیارات کی وجہ سے اصل ملک میں جائز کچھ اجزا کی دوسرے ممالک میں استعمال پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ نتیجتاً درآمد کنندہ ملک میں صارفین نادانستہ طور پر ایسی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں جنہیں مقامی قواعد و ضوابط غیر محفوظ یا نامناسب سمجھتے ہوں اور جس سے صحت کو ممکنہ طور پر خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ گرے مارکیٹ فوڈ ٹریڈ کا اہم پہلو مصنوعات کی تازگی برقرار نہ رہنا ہے۔ خراب نہ ہونے والی اشیا ءکے برعکس‘ بہت سی کھانے کی مصنوعات کی شیلف لائف محدود ہوتی ہے گرے مارکیٹ کے ذریعے تجارت کرنے والی مصنوعات اکثر اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے مشکل راستہ اختیار کرتی ہیں۔ یہ طویل‘ غیر منظور شدہ تقسیم کے راستے مصنوعات کی تازگی کو متاثر کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر کھانے پینے کی اشیا کی غذائیت کی قدر بھی کم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔پاکستان کی پھلتی پھولتی کنزیومر فوڈ مارکیٹ میں گرے ٹریڈ میں تشویش ناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اگرچہ یہ رجحان صرف پاکستان کے لئے مخصوص نہیں لیکن اس نے فوڈ سیفٹی کے حوالے سے خدشات کو جنم دیا ہے۔ خاص طور پر وزارت تجارت کی طرف سے جاری کردہ ایس آر او 237 جیسے فوڈ امپورٹ ریگولیشنز کی خاطرخواہ تعمیل نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال زیادہ گھمبیر دکھائی دیتی ہے۔ گرے مارکیٹ کا پھیلاو¿‘ خاص طور پر خوراک کے شعبے میں‘ عوامی صحت اور حفاظت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں‘ جہاں یہ غیر سرکاری تجارت رائج ہے‘ حکومت کو ہونے والے معاشی نقصانات یا برانڈ امیج میں گراوٹ کے علاو¿ہ اور بھی بہت کچھ داو¿ پر لگا ہوا ہے۔ اِس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے‘ حکومت کو قواعد و ضوابط کے بہتر نفاذ اور عوامی آگاہی مہمات کو ترجیح دینی چاہئے۔ سرحدوں اور بندرگاہوں پر کسٹمز حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ قومی اور صوبائی فوڈ اتھارٹیز جیسے ریگولیٹرز کے درمیان تعاون کی بھی ضرورت ہے اور اِس طرح کی مشترکہ کوششیں متعلقہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنا سکتے ہیں۔ مزید برآں مصنوعات کی تصدیق کا نظام قائم کرنے اور صارفین کو اُن کے حقوق سے آگاہی کے ساتھ بااختیار بنانے کی بھی ضرورت ہے جو گرے مارکیٹ کو پھیلنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فوزیہ وقار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)