مادر جمہوریت : بہادری کی میراث

تیئس اکتوبر دوہزارگیارہ کو بیگم نصرت بھٹو کی وفات سے پاکستانی سیاست میں ایک ایسے دور کا خاتمہ ہوا جس نے اپنے پیچھے خلا چھوڑا ہے ‘جسے بھٹو خاندان‘ سیاسی جماعتوں اور پوری قوم نے شدت سے محسوس بھی کیا ہے‘ ہم سب مادر جمہوری بیگم نصرت بھٹو کو اُن کی بارہویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں‘ بیگم بھٹو پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین ادوار میں سے ایک سے گزریں یہ بہادری کا وہ رول ماڈل ہے جسے صرف پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ پورے ملک نے خراج تحسین پیش کیا درحقیقت یہی سیاسی خدمت کا وہ وعدہ ہے جس کےلئے بھٹو خاندان اور جیالوں کی کئی نسلیں جینے اور مرنے کےلئے تیار ہیں عوام سے اقتدار کا وعدہ کبھی بھی معمولی نہیں ہوتا جس کےلئے قربانی اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے‘بیگم بھٹو نے یہ قربانی پیش کی جمہوری اور آئینی سیاست کی بحالی میں بیگم نصرت بھٹو کا تاریخی کردار ناقابل فراموش ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام سے لےکر بحالی جمہوریت کی تحریک (ایم آر ڈی) میں اُن کی قیادت تک‘ اپنے شوہر شہید ذوالفقار علی بھٹو کےلئے انکی غیر متزلزل حمایت اور جمہوریت سے ان کی ثابت قدمی حوصلے اور عزم کی مثال ہے‘ بیگم بھٹو نے ضیاءالحق کی آمریت کے دوران آئین کی بحالی اور جمہوریت کی واپسی کےلئے انتھک مہم چلائی‘کانٹوں سے بھرے اس راستے پر چلتے ہوئے بیگم بھٹو کو اپنے بچوں کے ساتھ قید اور جلاوطنی سمیت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا زبردست ظلم و ستم کے باوجود بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی نے جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے دوران مزاحمت جاری رکھی‘ بیگم بھٹو کے کردار اور قیادت نے پاکستان میں آئینی‘ ترقی پسند اور جمہوری سیاست کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا‘ بیگم نصرت بھٹو پاکستانی سیاست کے مردوں کے غلبے والے میدان میں ایک اہم شخصیت تھیں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی ضیاءالحق کی آمریت کے دوران ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے اُس وقت خواتین کو درپیش چیلنجوں کے باوجود ایک بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کی پیپلزپارٹی کی قیادت بحال کرنے کے بعد انہوں نے ایم آر ڈی کے حامیوں کو متحرک کرنے میں بھی فعال کردار ادا کیا اور ضیاءالحق حکومت کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی ‘ ان کی شفقت اور بہادری کی وجہ سے پارٹی کارکن انہیں پیار سے ”ماں (والدہ)“ کہہ کر پکارتے تھے وہ لوگوں کے درمیان سماجی تقسیم کو ختم کرنے میں ثابت قدم رہیں اور غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کیا جس کا مقابلہ بہت کم سیاسی شخصیات نے کیا ہے انہیں اپنے شوہر اور دو جوان بیٹوں کی موت سمیت بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ‘دوہزارسات میں جب ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں تو وہ ہسپتال کے بستر پر تھیں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو درپیش خطرات کا بخوبی علم تھا لیکن وہ اپنے والدین کی وراثت پر قائم رہیں اور کہا کہ انہیں پاکستان کےلئے جو کچھ کرنا ہے وہ ضرور کرنا چاہئے کیونکہ کوئی دوسرا سیاسی رہنما ایسا نہیں کر رہا تھا‘بیگم نصرت بھٹو خواتین کے حقوق اور سماجی انصاف کی وکیل بھی تھیں‘ جنہوں نے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کےلئے انتھک محنت کی وہ خواتین کو بااختیار دیکھنا چاہتی تھیں اور سیاست سمیت تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت کےلئے کوشاں رہیں‘ اِسی عزم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اُنہوں نے پیپلز پارٹی کے اندر خواتین ونگ قائم کیا‘ جس کی وہ بانی سربراہ تھیں اور بطور خواتین ونگ صدر انہوں نے نمایاں خدمات سرانجام دیں‘ بیگم نصرت بھٹو نے پاکستان میں خواتین پولیس تھانوں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تاکہ خواتین اپنے خلاف جرائم کی اطلاع دے سکیں اور اُنہیں زیادہ بہتر و موافق قانونی تحفظ حاصل ہو اور پولیس تھانے اِس لئے بھی ضروری سمجھے گئے تاکہ خواتین بغیر کسی خوف یا ہچکچاہٹ کے قانون کی خدمات تک رسائی حاصل کرسکیں۔ پیپلز پارٹی فطری طور پر جمہوریت اور آئینی سیاست کے لئے بیگم بھٹو کی غیر متزلزل وابستگی‘ قانون کی حکمرانی اور عوام کے حقوق کی وکالت جاری رکھے ہوئے ہے۔ بیگم نصرت بھٹو کی بارہویں برسی کے موقع پر ہم بیگم نصرت بھٹو کی قربانیوں اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کی جمہوری اور آئینی تاریخ پر انمٹ نشانات چھوڑے ہیں۔ وہ پاکستان میں جمہوریت اور انصاف کے لئے ہمیشہ جرا¿ت‘ ثابت قدمی اور پائیدار جدوجہد کی علامت کے طور پر یاد رکھی جائیں گی اور بیگم نصرف بھٹو کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔(بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)