عالمی معاشی بحران


سال دوہزاردس کے بعد سے عالمی معیشت بحران کا شکار ہے اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے شرح سود صفر کے قریب ہے۔ اس طرح کی تاریخی طور پر کم شرح سود کی وجہ سے سرمایہ کار زیادہ منافع کی تلاش میں پاکستان جیسے ممالک کا رخ کر رہے ہیں جیسا کہ حالیہ چند ماہ میں دیکھا گیا ہے کہ فرنٹیئر مارکیٹیں اپنی کھپت کو بڑے پیمانے پر فنڈ کرنے کےلئے غیر ملکی کرنسی میں قرض لے رہی ہےںاور اس سے پاکستان کی معاشی ترقی میں اضافہ ہوا ہے۔ 
وہ دور جس میں کھپت پر مبنی ترقی کو فنڈ کرنے کےلئے سرمایہ کاری ہو رہی تھی‘ اب ختم ہو چکا ہے ڈالر میں شرح سود میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ جس میں طویل مدتی شرح سود فی الحال سالانہ بنیادوں پر پانچ فیصد تک پہنچ چکی ہے‘ جو چند سال پہلے صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے بھی کم تھی اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ابھرتی ہوئی اور سرحدی منڈیوں کے وسائل کی کمی اور قرض کی ادائیگی میں ناکامی کے پیش نظر قرضوں کی تنظیم نو جاری ہے جن میں سری لنکا‘ گھانا‘ زیمبیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ قرضوں کی لاگت میں اضافہ اور خود مختار ممالک کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کےلئے خاطر خواہ آمدنی پیدا کرنے میں ناکامی ابھرتی ہوئی اور سرحدی منڈیوں میں قرضوں کی تنظیم نو کے فیصلوں کو متحرک کر رہی ہے آئندہ چند سہ ماہیوں میں بہت سے ممالک قرضوں کی تنظیم نو کے آپشنز پر غور کریں گے کیونکہ انہیں اپنے بیرونی اور داخلی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان مسلسل تنزلی کا شکار ہے اگرچہ وہ اب تک اپنے قرضوں کی تنظیم نو سے بچنے میں کامیاب رہا ہے لیکن ملک کی مالیات میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے اور معیشت کو بلند شرح سود کے ماحول کے حقائق کے مطابق لانے کےلئے چلایا جائے بلند شرح سود کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کےلئے اپنی غیر ملکی کرنسی کی ضروریات کو پورا کرنے کےلئے قرض لینا مشکل رہے گا۔ 
پاکستان کو ترقی کی ضرورت ہے کہ وہ ملکی سرمائے کو برآمد پر مبنی اور غیر ملکی کرنسی پیدا کرنے والی سرمایہ کاری کی طرف راغب کرے جبکہ حکمت عملی کے لحاظ سے درآمدات پر انحصار کم کیا جائے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چار فیصد سالانہ کی کم شرح سے بڑھنے کے باوجود موجودہ قرضوں کی ری فنانسنگ کے علاو¿ہ کھپت پر مبنی ترقی کم کرنے کےلئے سات ارب ڈالر سے زیادہ کے غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہے اِس طرح کے قرضوں کو بڑھانے میں ناکامی محدود ترقی کا باعث بنے گی بارہا اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ حصص کی شرح نمو برقرار رکھنے کےلئے ساختی تبدیلیاں اہم ہوتی ہیں‘ خاص طور پر عالمی میکرو اکنامک ماحول میں جہاں شرح سود طویل عرصے تک بلند رہنے کی توقع ہو۔
 اس کا مطلب یہ ہے کہ گھریلو سرمائے کو نظام کے اندر لاکر متحرک کرنے پر انحصار کیا جائے اور اسے زیادہ پیداواری انٹرپرائز بنایا جائے جو اصل میں پیداواری ترقی ہے۔ غیر ملکی کرنسی اور ملازمتیں صنعتی پالیسی کا حصہ ہیں‘ جو موجود نہیں جبکہ توانائی کی پالیسی جو اصل میں صنعتی پالیسی کی حمایت کرسکتی ہے وہ بھی موجود نہیں ہے۔
محاورہ ہے کہ معیشت ایک طرف لگی آگ بجھانے سے دوسری طرف لگی آگ بجھانے کے درمیان دوڑ دھوپ کا نام ہے اور یہ ہدف اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ساختی فیصلے معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن نہ کر سکیں۔ قرضوں کی ادائیگی سے وابستہ اخراجات وفاقی طور پر پیدا ہونے والی آمدنی کا 80 فیصد سے زیادہ ہیں‘ جس سے مالی خسارہ بڑھ جاتا ہے جبکہ ریاست کی اپنے شہریوں کی خدمت کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہوجاتی ہے کیونکہ کسی بھی ریاستی سرگرمی کو صرف زیادہ قرضوں کے ذریعے ہی انجام دیا جاسکتا ہے زیادہ سے زیادہ معاشی طبقوں اور گھرانوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کےساتھ براہ راست ٹیکس جمع کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں مالی خسارے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جس سے بالآخر مہنگائی بڑھتی ہے مزید برآں مالی خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کے اخراجات پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جو اس طرح کی سرگرمیوں کی حمایت میں ریاستی صلاحیت کو کافی حد تک کمزور کئے ہوئے ہے جبکہ اِس نے بھاری ریاستی مداخلت کے ذریعے مارکیٹ کے ڈھانچے کو مسخ کر دیا ہے۔
 اگر اگلی ایک دہائی میں ترقی کی کوئی امید ہے تو یہ طرز فکروعمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سستے سرمائے کا دور ختم ہو چکا ہے اور جتنی جلدی پالیسی سازوں کو اس بات کا احساس ہوگا‘ اتنا ہی سب کےلئے بہتر ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عمار حبیب خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)