ڈیجیٹل خطرات : بچے اور قوانین

آج کی دنیا میں‘ بچوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عروج سے پیدا ہونے والے نئے غیر روایتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جس میں سائبر بلنگ اور جنسی استحصال جیسے ڈیجیٹل خطرات شامل ہیں‘ جو پاکستان کے قانونی نظام میں جامع طور پر شامل نہیں حالانکہ پاکستان نے جولائی دوہزارگیارہ میں بچوں کی فروخت‘ جسم فروشی اور چائلڈ پورنوگرافی سے متعلق عالمی کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے‘ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسیف‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی پینتالیس فیصد آبادی کی عمر اٹھارہ سال یا اِس سے کم ہے غیرسرکاری تنظیم ”ساحل“ کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جنوری سے جون دوہزارتیئس تک‘ پاکستان بھر میں بچوں کے جنسی استحصال کے کل دوہزار دوسو ستائیس معاملات جبکہ چائلڈ پورنوگرافی کے 53 واقعات رپورٹ ہوئے۔ قانونی نظام کو محفوظ یا متاثرین بچوں کو درپیش خطرات میں قانونی نظام کی کمزوری تسلیم کرنی چاہئے اور خصوصی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے بچوں کےلئے حفاظتی طریقہ¿ کار فراہم کرنا چاہئے لہٰذا اِس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ہمارے بچوں کو آن لائن تشدد کی صورت میں مناسب قانونی تحفظ فراہم کیا جائے‘ حال ہی میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ 2016ء(PECA) میں فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2023ءنامی ترمیم کی گئی‘ جس کا بنیادی مقصد بچوں کو ممکنہ ’آن لائن تشدد‘ سے جامع تحفظ فراہم کرنا ہے‘ مذکورہ ترمیم چوبیس جولائی دوہزارتیئس کو گزٹ آف پاکستان میں شائع ہوئی‘مذکورہ ترمیم پاکستان میں جنسی تشدد سے متعلق تازہ ترین وفاقی قانون ہے اس سے قبل انسداد ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ اور کریمنل لا (ترمیمی) ایکٹ دوہزاراکیس نافذ کیا گیا‘اس کے علاو¿ہ اینٹی ریپ ایکٹ دوہزاراکیس کے تحت چار الگ الگ قوانین کو نوٹیفائی کیا گیا‘ جن میں اینٹی ریپ کرائسز سیل اور میڈیکو لیگل رولز‘ ٹرائل پروسیجر رولز‘ انویسٹی گیشن رولز دوہزاربائیس اور جنسی مجرم رجسٹر رولز دوہزارتیئس شامل ہیں۔ یہ سفارش کی جاتی ہے کہ جب ’پی ای سی اے‘ کی دوہزارتیئس کی مذکورہ ترمیم کا مسودہ تیار کیا جا رہا تھا تو پہلے سے موجود قانونی فریم ورک کو مضبوط روابط کے ساتھ مربوط کر دیا جاتا تاکہ کریمنل جسٹس سسٹم (سی جے ایس) کے کرداروں کی طرف سے مربوط ردعمل کی فراہمی ممکن ہو سکتی۔ مذکورہ ترمیم کے سیکشن ٹو (وی اے) کے تحت‘ بچے کی تعریف ”اٹھارہ سال سے کم عمر کے شخص“ کے طور پر کی گئی ہے یہ ایک اچھا اضافہ ہے کیونکہ یہ بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی آر سی) کے آرٹیکل ون کے مطابق ہے بچوں کے خلاف جرائم میں اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دے سکتی ہیں۔جے آئی ٹی میں تفتیشی افسر کی سربراہی میں پانچ ارکان شامل ہوں گے اِسی طرح اینٹی ریپ ایکٹ کی دفعہ کے دفعہ کے تحت خصوصی جنسی جرائم تحقیقاتی یونٹس (ایس ایس او آئی یو) کو جنسی تشدد کے جرائم میں خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘ اینٹی ریپ ایکٹ کے مطابق جن جرائم کی تحقیقات ایس ایس او آئی یو کے دائرہ اختیار میں ہے انہیں مزید دو زمروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے شیڈول 292 میں شامل جرائم بھی اِس کا حصہ بنا دیئے گئے ہیں (لیکن یہ محدود نہیں ہیں) بچوں سے متعلق خصوصی و عمومی جرائم سے متعلق قوانین میں موجود بہت سے سقم دور کئے گئے ہیں اور بہت سے امور کی وضاحت کر دی گئی ہے تاہم گواہوں پر مبنی قانونی نظام میں کسی بھی جرم کو ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا بالخصوص جبکہ جرائم کے ثبوت ڈیجیٹل ہوں‘ ایسی صورت میں بہتری اِس میں ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم کو روکنے کےلئے صرف قوانین پر کلی انحصار نہ کیا جائے بلکہ ریاست و معاشرہ اِس سلسلے میں اپنی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے عہدہ براءہو۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ردا طاہر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)