آفات کا دور

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 13 اکتوبر 1989ءکے روز ”قدرتی آفات کے خطرے میں کمی کے بین الاقوامی دن (آئی ڈی ڈی آر آر)“ منانے کا اعلان کیا اِس دن کو نامزد کرنے کا مقصد قدرتی آفات کے خطرے کو کم کرنے کےلئے عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں کو آگے بڑھانا ہے اس کے بعد سے مذکورہ عالمی دن ہر سال قدرتی آفات کے خطرات اور نقصانات کی روک تھام اور انہیں کم سے کم کرنے میں عالمی پیش رفت کا جائزہ لینے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے جبکہ اِسی دن کی بدولت تحفظ ماحول کی کوششوں میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے رواں سال ”سینڈائی فریم ورک 2015-2030ئ“ نامی حکمت عملی کے نفاذ کا وسط مدتی جائزہ لیا گیا مئی 2023ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قدرتی آفات سے نمٹنے کےلئے اقدامات میں تیزی کےلئے سیاسی اعلامیہ منظور کیا تھایہ موضوع سینڈائی فریم ورک سے مطابقت رکھتا ہے‘ جو زندگیوں‘ معاش‘ معیشتوں اور بنیادی ڈھانچے میں نقصانات روکنے اور اِنہیں کم کرنے کا بین الاقوامی معاہدہ ہے سینڈائی فریم ورک موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے کی بھی تکمیل کرتا ہے‘ جس میں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کےلئے دونوں فریم ورک قریبی طور پر جڑے ہوئے ہیں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل کی چھٹی تشخیصی رپورٹ (اے آر 6) میں جنوبی ایشیائی خطے کو موسمیاتی تبدیلی اور ہائیڈرو موسمیاتی آفات کےلئے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا ہے‘ انسانوں کی وجہ سے پیدا ہونےوالے متغیرات میں بے قابو آبادی‘ غیر منصوبہ بند شہرکاری‘ غربت کا پیچیدہ جال اور سیاسی و معاشی عدم استحکام پہلے سے ہی کمزور آبادیوں کو بڑے پیمانے پر تباہی اور ذریعہ معاش‘ بنیادی ڈھانچے اور سب سے اہم سماجی سرمائے میں خلل کے لحاظ سے مزید مشکل میں ڈال رہے ہیں اگرچہ انسانیت کےلئے تنازعات سے پیدا ہونےوالی آفات پر قابو پانا مکمل طور پر ممکن ہے لیکن قدرتی آفات روکنا اور انہیں ختم کرنا ناممکن ہوسکتا ہے جب جانی و مالی نقصانات روکنے یا اِنہیں کم سے کم کرنے کی بات ہوتی ہے تو کچھ بھی ناگزیر نہیں ہوتا پیچیدہ اسباب و اثرات کو تلاش کرنے کے لئے‘ انسان آب و ہوا سے متاثر ہونےوالے اور انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی قدرتی آفات کی شرائط میں فرق دیکھنے پر خود کو مجبور محسوس کرتا ہے‘ اقوام متحدہ کے ذیلی شعبہ برائے آفات و خطرات میں کمی (یو این ڈی آر آر) نے قدرتی آفت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”کسی بھی پیمانے پر اگر کسی کمیونٹی یا معاشرے کے کام کاج میں خلل اور جس کے نتیجے میں انسانی‘ مادی‘ معاشی اور ماحولیاتی نقصانات اور اثرات پیدا ہوں تو ایسی صورتحال کو قدرتی آفت کہا جائے گا“ مزید برآں عالمی بینک نے قدرتی آفت کی الگ سے تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”غیر فطری آفات اموات اور نقصانات جو انسانی غلطیوں کی وجہ سے رونما (ظہورپذیر) ہوتے ہیں“ یہ دونوں بیانات واضح کرتے ہیں کہ قدرتی آفات خطرناک واقعات اور معاشرتی نظام اور آبادی کی کمزوری کا باعث بنتی ہے اور اس کا سبب (بنیادی وجہ) انسان ہی ہوتے ہیں لہٰذا ’قدرتی آفات‘ کے لفظ میں ’قدرتی‘ کی خصوصیت ’آفت‘ کے رسمی معنی کو غلط انداز میں پیش کرتی ہے‘ ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی چھوٹا یا بڑا المناک واقعہ اس سے نمٹنے کےلئے کئے جانےوالے فیصلوں کی وجہ سے تباہی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رضا حسین قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)