نگران حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے کئی اہم مسائل سے نمٹنے کےلئے پرعزم کوشش کی ہے‘ اس فعال نقطہ نظر میں غیر قانونی کرنسی مارکیٹوں پر قابو پانا‘ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائیاں اور کرنسی سمگلنگ جیسے مسئلے کو حل کرنا شامل ہے مزید برآں‘ غیر قانونی نقل مکانی کا مقابلہ کرنے اور بیٹنگ کمپنیوں کے ریگولیشن کی نگرانی کےلئے انتظامی اقدامات بھی نافذ کئے گئے‘ ان مشترکہ کوششوں سے حوصلہ افزا اور سازگار نتائج برآمد ہوئے ہیں یقینی طور پر خالص انتظامی اقدامات اکیلے میکرو اکنامک حقائق کو نمایاں طور پر تبدیل نہیں کرسکتے میکرو سطح کے معاشی حالات مختلف عوامل کے پیچیدہ باہمی تعامل سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ انتظامی اقدامات‘ جو بنیادی طور پر حکومت یا متعلقہ حکام کی طرف سے معیشت کے کچھ پہلوو¿ں کو منظم اور کنٹرول کرنے کےلئے اٹھائے گئے اقدامات ہیں‘ پہیلی کا صرف ایک ٹکڑا ہیں یقینی طور پر‘ صرف انتظامی اقدامات ہمارے میکرو اکنامک حقائق کو تبدیل کرنے کےلئے ناکافی ہیں‘ ان میں سے تین میکرو اکنامک حقائق ہیں‘ بجٹ خسارہ‘ تجارتی عدم توازن اور افراط زر یہ تینوں معیشت کے اندر ساختی مسائل میں گہری جڑیں رکھتے ہیں‘ انتظامی اقدامات مختصر مدت میں ان مسائل کو سنبھالنے میں مدد کرسکتے ہیں لیکن وہ بنیادی ساختی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہیں‘رواں سال حکومت کا بجٹ خسارہ آٹھ کھرب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری قرضوں میں اضافہ‘ بڑھتی ہوئی افراط زر‘ نجی سرمایہ کاری‘ روپے کی شرح تبادلہ پر بڑھتا ہوا دباو¿ اور پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں ممکنہ گراوٹ جیسے امور شامل ہیں‘ انتظامی اقدامات‘ اس پیچیدہ مسئلے کا محدود حل پیش کرتے ہیں اِس صورتحال میں جو چیز واقعی ضروری ہے وہ یہ ہے‘ سخت مالی نظم و ضبط کا نفاذ‘ مو¿ثر لاگت کا انتظام اور دانشمندانہ قرض لینے کے طریقوں کو اپنایا جائے۔ جولائی تا ستمبر کے دوران تجارتی خسارہ 5 ارب ڈالر سے زیادہ رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران ریکارڈ کئے گئے 9 ارب ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں نمایاں بہتری ہے اور یہ بیالیس فیصد جیسی غیرمعمولی کمی بھی ہے‘ یہ تجارتی عدم توازن فطری طور پر ہمارے معاشی ڈھانچے اور مہارت سے جڑا ہوا ہے ‘ اس بنیادی مسئلے سے نمٹنے کےلئے انتظامی اقدامات ناکافی ثابت ہوں گے‘ ہمیں جامع ریگولیٹری اصلاحات‘ برآمدات میں تنوع کی جانب اسٹریٹجک مہم‘ ویلیو ایڈیشن پر زور اور تجارتی سہولت کاری کے عمل کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ مئی میں پاکستان کی سالانہ افراط زر کی شرح بڑھ کر قریب 38 فیصد ہوگئی جو مسلسل دوسرے ماہ کا تاریخی ریکارڈ ہے‘ پاکستان میں افراط زر کرنسی نوٹوں کی بڑے پیمانے پر چھپائی کا نتیجہ ہے گزشتہ پانچ سال کے دوران گردش میں موجود کرنسی چار کھرب روپے سے بڑھ کر نو ٹریلین روپے تک پہنچ گئی ہے‘ کرنسی کی فراہمی میں اس اضافے نے روپے کی قدر کو کم کر دیا ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک ایسا منظر نامہ پیدا ہوا ہے جہاں اتنی ہی مقدار میں سامان خریدنے کےلئے مزید رقم کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس سے بالآخر افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے‘ اس تناظر میںانتظامی اقدامات ان کی تاثیر میں محدود ہیں خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے نگران حکومت کی کاوشیں قابل ستائش ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ خالصتاً انتظامی اقدامات ہی ہمارے معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں ہی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں‘ بجٹ خسارے‘ تجارتی عدم توازن اور ریکارڈ افراط زر کی جڑیں ساختی مسائل میں گہری ہیں جو انتظامی حل سے زیادہ طلب کرتے ہیں۔ ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کو یقینی بنانے کےلئے ہمیں معاشی فیصلہ سازی میں ساختی اصلاحات‘ سخت مالی نظم و ضبط اور سیاست کو کم سے کم کرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔ ہمارے ملک کی اقتصادی خوشحالی ان اہم تبدیلیوں پر منحصر ہے اور یہ ضروری ہے کہ اِس مرحلے پر فیصلہ کن طور سے کام کیا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام