کہتے ہیں ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے بس اس کے لیے حواس برقرار رکھنا اور حاضر دماغی سے کام لینا ضروری ہے۔
یہ تصویر مشرقی افریقہ کی ایک کہانی پر مبنی ہے۔
تصویر میں دیکھی جانے والی مشکل صورتحال کے بعد کیا آپ بتا سکتے ہیں اس شخص کے مسئلے کا حل کیا ہے اور کیسے یہ اپنی جان بچا سکتا ہے۔
اگر آپ جواب تلاش کرنے میں ناکام رہیں تو ذیل میں دیا گیا افریقی کہانی کا خلاصہ پڑھ لیں۔
اور اگر آپ نے جواب ڈھونڈ لیا ہے تو بھی آپ اس کا موازنہ کہانی سے کر سکتے ہیں۔
یہ مسٹر ٹربل کے بارے میں مشرقی افریقی کہانی پر مبنی ہے۔
بوانہ شیدا نامی لڑکا ایک دن آگ جلانے کے لیے لکڑی کاٹنے گیا، اس نے ایک درخت کو کاٹنا شروع کیا اور جب وہ اپنا کام تقریباً ختم کرہی چکا تھا تو اس نے اپنے پیچھے ایک شیر کی دھاڑ سُنی ، وہ پھرتی سے درخت پر چڑھ دوڑا اور اوپر پہنچ کر نیچے دیکھا تو شیر وہاں موجود تھا۔
بوانہ نے سوچا کہ وہ تو بحفاظت درخت کی بلندی پر پہنچ گیا ہے لیکن اسے نے مڑکر دیکھا تو ایک اور خطرہ موجود تھا۔ اس کے برابر ولی شاخ پر ایک زہریلا سانپ بیٹھا تھا۔ اب وہ نہ تو نیچے جاسکتا تھا نہ ہی درخت اس کے لیے محفوظ تھا۔
اس کے دل میں خیال آیا کہ ندی میں چھلانگ لگا دے جہاں سانپ اور شیر اس کا پیچھا نہیں کریں گے لیکن جب اس نے نیچے دیکھا تو دو خطرناک مگرمچھ جبڑے کھولے تیز دانتوں کے ساتھ اس کے شکار کو تیار کھڑے تھے۔
بوانہ شیدا کے پاس اب فیصلہ لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ اسے کیا کرنا چاہئیے کیونکہ تیز ہوا بھ چلکنی شروع ہوگئی تھی اور کام کے باعث پہلے سے ہی تھکن ہونے کی وجہ سے اس کے لیے درخت سے لٹکے رہ کر اپنی گرفت برقرار رکھنا مشکل ہورہا تھا۔
بوانہ شیدا نے اپنے آپ سے کہا، میں صرف اس وقت شاخ پکڑے رکھوں گا جب تک میں ایسا کرسکتا ہوں، دیکھتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے’.
عین اس وقت جب قسمت بہتر بنانا ناممکن لگ رہا تھا تو تیز ہوا نے پہلے سے کٹے ہوئے درخت کو گرا دیا جس سے شیر اور سانپ زدمیں آئے۔ طاقتور درخت کے ٹوٹنے کی آواز نے مگرمچھ کو پانی سے بھری ندی میں واپس بھیج دیا اور بوانہ شیدا اپنے شکاریوں کی پہنچ سے باہر ہوکت فوراً وہاں سے روانہ ہوگیا۔
اس کہانی کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ، ’جب چیزیں مشکل ہوں تو آپ کو اُن پر گرفت رکھنی پڑتی ہے، اورجب چیزیں مشکل ترہوں تو آپ کو قابو پانے کے لیے سخت گرفت رکھنی پڑتی ہے۔