پاکستانی خواتین کے پہلے ڈرائیونگ ٹیسٹ میں فیل ہونے کی زیادہ شرح: خواتین بری ڈرائیور نہیں، بس وہ گھبرا جاتی ہیں
اگر آپ ان دنوں لاہور کے کسی الخدمت سینٹر کا رخ کریں تو آپ کو اس پر کسی مچھلی منڈی کا گماں ہو گا۔
یہ حالات صوبہ پنجاب میں بغیر لائسنس اور کم عمر ڈرائیورز کے خلاف کریک ڈان کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔
دراصل گذشتہ ماہ لاہور میں کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت نے صوبے میں ٹریفک کے نظام پر کئی سوالات کھڑے کر دیے تھے۔
اس پر لاہور ہائیکورٹ نے ٹریفک پولیس کو یہ احکامات جاری کیے کہ کم عمر ڈرائیورز اور لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
اس کارروائی کے نتیجے میں نئے لائسنس بنوانے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ٹریفک انسپکٹر عمران فراز کے مطابق پہلے ہمارے پاس روزانہ کی بنیاد پر ہزار سے پندہ سو افراد لرنر (تربیتی) لائسنس بنوانے آتے تھے جن کی تعداد اب اوسطا نو سے دس ہزار ہوگئے ہیں۔
پاکستانی قوانین کے مطابق بغیر لائسنس گاڑی چلانے اور اس دوران کسی ٹریفک حادثے میں کسی کی جان جانے کی صورت میں ڈرائیور کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی ہو سکتا ہے، لہذا لائسنس اتنا ہی ضروری ہے جتنا شناختی کارڈ۔ کیونکہ اگر آپ لائسنس یافتہ ڈرائیو ہیں اور حادثے کے نتیجے میں کسی شخص کی جان چلی جاتی ہے تو مقدمہ قتل خطا کا ہوتا ہے۔
شاید اسی ڈر سے، ٹریفک انسپکٹر کے مطابق، پچھلے 45 روز میں قریب تین لاکھ افراد نئے لرنر لائسنس بنوا چکے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے حکام نے ڈرائیونگ ٹیسٹ سینٹر کے کچھ دلچسپ اعداد و شمار بھی بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔
ان کے مطابق پنجاب بھر میں لگ بھگ 70 فیصد خواتین اپنے پہلے ڈرائیونگ ٹیسٹ میں فیل ہو جاتی ہیں جبکہ سائن بورڈ ٹیسٹ میں یہ صورتحال اس کے الٹ ہے، یعنی فیل ہونے والے مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے۔
جب ہم نے اس بارے میں بعض خواتین سے رائے جاننا چاہی تو اکثر کا خیال تھا کہ وہ بری ڈرائیور نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں مردوں کے مقابلے زیادہ تر خواتین کو گاڑی چلانے یا ڈرائیونگ سیکھنے کا موقع ہی بہت کم ملتا ہے۔
گذشتہ کئی ماہ سے اپنی کار چلانے والی ثمینہ راشد کہتی ہیں کہ لڑکے کم عمری، جیسے میٹرک یا او لیولز سے گاڑی چلانا شروع کر دیتے ہیں مگر والدین کو ان کے غیر قانونی طور پر گاڑی چلانے پر بھی اعتراض نہیں ہوتا ہے۔
مگر جب بات لڑکیوں کی آتی ہے تو پاکستانی معاشرے میں عموما والدین یہی سوچتے ہیں کہ پہلے شادی ہو جائے، اس کے بعد سارے کام کریں۔ ایسی صورتحال میں لڑکیاں نہ تو گاڑی سیکھ پاتی ہیں اور نہ ہی گاڑی چلا پاتی ہیں۔
بہت ساری خواتین بہت اچھی ڈرائیور بھی ہوتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو خود اعتمادی نہیں دی جاتی ہے
ثمینہ راشد کا خیال ہے کہ کار چلانے کے لیے سب سے ضروری خود اعتمادی ہے جو تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین میں کم رہ جاتی ہے۔
یہی حال شاید نورین آصف کا تھا جو اپنے والد اور شوہر کے ساتھ سینٹر میں ڈرائیورنگ ٹیسٹ دینے آئی تھیں مگر ایک غلط موڑ کی وجہ سے ٹیسٹ میں فیل ہو گئیں۔
اگرچہ انھیں اپنے گھر والوں کی مکمل حمایت حاصل ہے تاہم ان کا خیال ہے کہ خواتین اپنے تحفظ کو درپیش مسائل کی وجہ سے کم تجربہ کار رہ جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بہت ساری خواتین بہت اچھی ڈرائیور بھی ہوتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو خود اعتمادی نہیں دی جاتی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ ڈرائیورنگ ٹیسٹ میں فیل ہونے والے کئی مرد و خواتین گاڑی کو ریورس کرنے کے دوران ٹائر رکاوٹ کے لیے نصب کون پر چڑھا دیتے تھے۔
30 سال سے گاڑی چلانے والی ارم کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں سٹرکوں پر نکلنے والوں میں بہت کم لوگ ہیں جن کو روڈ پر گاڑی، موٹر سائیکل، رکشہ یا پھر پیدل سٹرک کراس کرنے کا صیح طریقہ آتا ہو۔
عائشہ ظفر ان خواتین میں سے تھیں جنھوں نے باآسانی ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کر لیا۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر خواتین اپنے والد، بھائی یا شوہر سے کار چلانا سیکھتی ہیں۔ گھر والے عموما سکھاتے بعد میں اور ڈانٹتے پہلے ہیں، جو کسی بھی خاتون کی خود اعتمادی ختم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ان کا مشورہ ہے کہ خواتین کو ڈرائیونگ اپنی جیسی خواتین یا کسی ڈرائیونگ سکول سے سیکھنی چاہیے۔
30 سال سے گاڑی چلانے والی 55 سالہ ارم اپنے لائسنس کی تجدید کے لیے الخدمت سینٹر آئی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ سڑک پر چلتی ہوئی گاڑی کا ڈرائیور اگر کوئی غلطی کرتا تو عموما لوگ دیکھے بغیر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ضرور کوئی عورت ہی چلا رہی ہو گی۔ جبکہ ہمارے ہاں سٹرکوں پر نکلنے والوں میں بہت کم لوگ ہیں جن کو روڈ پر گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے یا پھر پیدل سٹرک عبور کرنے کا صیح طریقہ آتا ہو۔
ٹیسٹ کے دوران ایک، ایک چیز پر نظر ہوتی ہے اور زندگی میں کوئی بھی ٹیسٹ ہو تو اسے فیل کرنے کا ڈر تو بہرحال ہوتا ہی ہے۔
یہ سوال ڈرائیونگ ٹیسٹ لینے والے ٹریفک وارڈن محمد عثمان کے سامنے رکھا کہ خواتین سمیت اکثر لوگ ریورس کرنے کے دوران فیل کیوں ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ گاڑی چلانے سے پہلے سیٹ اور گاڑی کے شیشے اپنے مطابق ایڈجسٹ نہیں کرتے جس کی وجہ سے انھیں نظر نہیں آتا۔ جبکہ کئی خواتین گھبرا بھی جاتی ہیں۔
الخدمت سینٹر پر آنے والے درجنوں مرد اور خواتین ایسے تھے جو کئی برسوں سے گاڑی لرنر لائسنس پر ہی چلا رہے ہیں۔
پہلے لرنر لائسنس کی معیاد پوری ہونے پر ٹیسٹ دے کر مستقل لائسنس بنوانے کی بجائے وہ لرنر لائسنس کی تجدید کو ترجیج دیتے ہیں۔
کئی برسوں سے لرنر لائسنس پر گاڑی چلانے والے شخص سے سوال کیاگیا کہ آپ مستقل لائسنس کیوں نہیں بنوا لیتے؟
اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کون پوچھتا ہے؟ باقی یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میری سستی ہے۔ جب بھی لرنر لائسنس کی میعاد ختم ہوتی ہے تو دوبارہ تجدید کروا لیتا ہوں۔
سسٹم کی اس خرابی پر بات کرتے ہوئے انسپکٹر عمران فراز کا کہنا تھا کہ قانونی طور پر ہم ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتے ہیں جن کے پاس کسی بھی قسم کا بھی لائسنس موجود ہو۔
البتہ ابھی سسٹم میں کوئی ایسا طریقہ یا قانون موجود نہیں جس کے تحت ہم ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کر سکیں جو بار بار لرنر لائسنس بنواتے ہیں۔