آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت (اے آئی) جدید ترین ٹیکنالوجی کا نام ہے جس میں کمپیوٹر آلات ازخود فیصلہ کرنے یا کسی نتیجے تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ مصنوعی ذہانت کا استعمال ہر دن بڑھ رہا ہے اور اِس کے ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کے انسانی معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات بھی عالمی سطح پر زیربحث ہیں‘ لوگوں کو یقین نہیں کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کو ان کے کام میں اضافے اور تکمیل میں مدد دے رہی ہے یا انسانوں کے سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر رہی ہے‘ اگرچہ مصنوعی ذہانت اپنے آپ میں انقلاب ہے اور اس نے دنیا کے ہر ملک میں صارفین کی توجہ حاصل کی ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس کے استعمال کو کس طرح منظم و مربوط کیا جائے؟ خدشات یہ ہیں کہ اگر مناسب طریقے سے مصنوعی ذہانت کو منظم اور استعمال نہ کیا گیا تو یہ ٹیکنالوجی انسانی وجود کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ مشینی ذہانت میں تنقیدی سوچ کا فقدان ہوتا ہے جو انسانیت کے لئے حقیقی خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین اِس جانب توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ بل گیٹس کی پیش گوئی کہ ”مصنوعی ذہانت جدت کو سپر چارج کرنے والی ہے“ واضح طور پر اس نئی ٹیکنالوجی کو دیگر تکنیکی انقلابات پر برتری دینے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت زیادہ آسانی‘ درستگی اور رفتار کے ساتھ متعدد انسانی افعال انجام دے سکتی ہے۔ تاہم یہ انسانوں پر منحصر ہے کہ وہ اِس ٹیکنالوجی کو کس طرح کنٹرول کریں اور زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج کیسے حاصل کریں۔ بہت سے ’سی اِی اُوز اور محققین تجویز کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو انسانیت کے لئے خطرہ بننے سے روکنے کےلئے مصنوعی ذہانت کو کنٹرول اور ریگولیٹ کیا جائے۔ مصنوعی ذہانت اُس صورت میں انسانی وجود کے لئے خطرناک بننے کی بھرپور صلاحیت و گنجائش رکھتی ہے کہ اگر اِسے حکومتوں کی طرف سے منظم اور مناسب طریقے سے کنٹرول نہ کیا جائے۔ مختلف سروے اور تحقیق کے مطابق ”اگر سائنس بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہی تو‘ غیر امداد یافتہ مشینوں کے ہر ممکنہ کام میں انسانوں سے آگے نکلنے کے امکانات کا تخمینہ دوہزارستائیس تک دس فیصد اور دوہزارسینتالیس تک پچاس فیصد ہو گا۔ مصنوعی ذہانت سے متعلق مباحثے اس بات پر زیادہ مرکوز ہیں کہ آیا مصنوعی ذہانت کا استعمال انسانی کارکردگی میں اضافہ کرے گا یا اس کی جگہ لے لے گا۔ ایم آئی ٹی کا ایک منصوبہ جس کا عنوان ’شیپنگ دی فیوچر آف ورک انیشی ایٹو‘ ہے نے انسانی صلاحیتوں کی مدد کے لئے مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں کہا ہے کہ یہ عنقریب انسانوں کی جگہ لے گا تاہم ماہرین مصنوعی ذہانت کو دو دھاری تلوار قرار دے رہے ہیں۔سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے منیجنگ ڈائریکٹر کی جانب سے نشاندہی کی گئی ہے کہ لیبر مارکیٹ ممکنہ طور پر مصنوعی ذہانت میں ہونے والی پیش رفت متاثر ہوسکتی ہے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی کی وجہ سے دنیا تقریباً چالیس فیصد ملازمتوں سے محروم ہوسکتی ہے‘ جس سے عدم مساوات‘ عدم تحفظ اور معاشرتی بدامنی میں اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر چین کے وزیر اعظم لی کیانگ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے وقت ’ریڈ لائنز‘ عبور نہیں کرنا چاہئے۔ گولڈ مین ساکس پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی دنیا بھر میں تیس کروڑ ملازمتوں کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے معاشی ترقی کو سات فیصد تک فروغ ملنے کا امکان ہے۔ بدقسمتی سے بہت سے ممالک کے پاس مصنوعی ذہانت کے تکنیکی انقلاب کے فوائد حاصل کرنے کے لئے خاطرخواہ ہنرمند افرادی قوت موجود نہیں اور پاکستان بھی ایسے ہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی صنعت سے لے کر سرمایہ کاری اور آب و ہوا کی تبدیلی تک معیشت کے تقریباً تمام شعبوں میں انسانی کارکردگی کو فروغ دے سکتی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈبلیو ایچ او نے پانچ شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن میں اِس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر انسانیت کے فائدے کےلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت علمی معیشت کے لئے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے‘ جس سے معاشی نمو اور ترقی کو فروغ مل سکتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
یہ حکومت اور عوام کو ممکنہ موسمیاتی آفات کے بارے میں پیشگی متنبہ کرکے پاکستان جیسے ممالک کی اقتصادی ترقی کا موجب ہو سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کو انسانوں پر برتری حاصل ہے کیونکہ یہ تیز رفتار اور تقریباً غلطی سے پاک ہوتی ہے۔ آج کی دنیا میں ڈیٹا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور درحقیقت یہ ایک سونے کی کان جیسی ہے‘ جو سکیورٹی اور کاروباری فروغ کو طاقت دیتا ہے۔ جنریٹیو اے آئی روبوٹس اور چیٹ بوٹس بشمول مڈجرنی اور چیٹ جی پی ٹی اہم ڈیٹا ٹول بن چکا ہے۔ رواں برس ساٹھ فیصد ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کردہ غلط معلومات انتخابی نتائج کو متاثر کر سکتی ہیں تاہم مستقبل مصنوعی ذہانت کا ہے اور اِس کے منفی پہلوو¿ں سے مثبت پہلو زیادہ ہیں جبکہ مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اِس کے استعمال سے احتساب اور شفافیت جیسے اہداف حاصل ہو سکتے ہیں۔