ماحولیاتی تبدیلیاں اور صحت

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی)کا کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین ارب افراد ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جو قدرتی آفات کے ظہور کی وجہ سے کمزور علاقے قرار دیئے جاتے ہیں۔ اِس حوالے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں قبل از وقت اموات میں سے تیئس فیصد کا تعلق صرف موسمیاتی تبدیلی سے ہے اور سال دوہزارتیس تک ہر سال ڈھائی لاکھ اضافی اموات فضائی آلودگی ‘غذائی عدم تحفظ اور دیگر ایسے متعلقہ محرکات کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافے کے نتیجے میں رونما ہوں گی یہ پہلا موقع تھا جب صحت پر آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کا مطالعہ اور تبادلہ خیال کیا گیا۔ عالمی رہنماو ں نے سی او پی اٹھائیس نامی اجلاس میں جو کہ متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا اور اس کے اعلامیہ برائے آب و ہوا اور صحت کے عنوان سے شریک ممالک نے دستخط بھی کئے۔ دستخط کرنے والوں میں 123 سے زائد ممالک شامل ہیں۔ مذکورہ عالمی دستاویز آب و ہوا کے تحفظ سے متعلق اقدامات آب و ہوا کی بحالی اور تحفظ کے علاو ہ اِس سے جڑے صحت عامہ سے متعلق ہے۔ اس میں آب و ہوا کی تبدیلی اور صحت کے نصاب کو تعلیم اور ڈگری پروگراموں میں ضم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز میں موسمیاتی تبدیلی اور صحت کو قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سیز) نیشنل کمیونی کیشنز (این سیز)اور آب و ہوا کی پالیسیوں میں شامل کرنے پر زور دیا گیا ہے‘ سال دوہزارپچیس میں ہونےوالے آئندہ این ڈی سیز ممالک کو سی او پی اٹھائیس میں کئے گئے صحت کے وعدوں پر عمل درآمد کے لئے واضح ٹائم لائن قرار دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں آب و ہوا کے لئے تیار افرادی قوت اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ قبل از وقت انتباہ اور ردعمل کے نظام پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ممالک نے اب تک 1.777 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تقریباً اکیاسی ممالک ڈبلیو ایچ او کے الائنس فار ٹرانسفارمیٹو ایکشن آن کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ (اے ٹی اے سی ایچ) میں بھی شامل ہوئے ہیں جو سی او پی چھبیس میں طے شدہ اہداف کے حصول کا عالمی عزم ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے اسٹیک ہولڈرز اور رکن ممالک کی اجتماعی کوششوں کا مقصد پائیدار اور آب و ہوا کے لچک دار صحت کے نظام کو فروغ دینا ہے جس کے لئے مالی ضروریات کے تعین پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ سی او پی اٹھائیس میں ورلڈ کلائمیٹ ایکشن سمٹ کے دوران ڈبلیو ایچ او گرین کلائمیٹ فنڈ(جی سی ایف)اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام(یو این ڈی پی)کی سربراہی میں ہوئے مشترکہ اقدام نے موسمیاتی تبدیلی اور صحت سے نمٹنے میں ترقی پذیر ممالک کو مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایشیا جنوب مشرقی یورپ اور افریقہ کے چودہ ممالک پر مرکوز یہ اقدام موسمیاتی تبدیلی اور صحت کے گٹھ جوڑ سے نمٹنے کے لئے طاقتور عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ سی او پی اٹھائیس کا اختتام جیواشم ایندھن دور کے اختتام کے آغاز کا اشارہ دیتے ہوئے کیا گیا ہے جس پیغام کا اعادہ کانفرنس کے دوران کیا گیا۔ سی او پی اٹھائیس کا اہم نتیجہ پہلے عالمی سٹاک ٹیک کے ارد گرد مرکوز تھا اور ایک سو ممالک کی حمایت یافتہ پرجوش زبان کے باوجود فوسل ایندھن کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کوئلے کی بجلی میں صرف مرحلہ وار کمی واقع ہوئی تھی۔ بہرحال کوئلے کی بتدریج کمی بھی صحت کے اہم معاون فوائد رکھتی ہے جو آلودگی اور شدید گرمی سے متاثرہ زندگیوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔ ہمارے ساتھ بات چیت میں ڈبلیو ایچ او کے مشیر مازن ملکاوی نے زور دے کر کہا اگرچہ کچھ علاقے کم گرین ہاو س گیسوں کا اخراج کرتے ہیں لیکن وہ باقی دنیا کے مقابلے میں درجہ حرارت اور دیگر آب و ہوا کے خطرات میں تیزی سے تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ آب و ہوا کے خطرات ماحولیاتی انحطاط قدرتی آفات موسمی انتہاﺅ ں خوراک اور پانی کے عدم تحفظ معاشی خلل اور تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں۔ صحت کے لئے نتائج کافی ہیں اور ان میں زیادہ مہلک شدید موسمی واقعات غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور متعدی بیماریوں کے ابھرنے اور پھیلنے میں اضافہ شامل ہیں۔پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے صحت کے متعدد بحرانوں سے نبرد آزما ہے چونکہ یہ تاریخی صحت کے اعلامیے پر دستخط کنندہ ہے لہذا یہ صلاحیت سازی اور عالمی حمایت کے ذریعے مالی اعانت حاصل کرنے سمیت متعدد فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان نے آب و ہوا سے نمٹنے والے صحت کے نظام کے لئے ایکشن کا ایک فریم ورک تیار کیا ہے۔ ملک کے لئے آگے بڑھنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے رہنما خطوط اور آلات کا استعمال کرتے ہوئے اخراج کو روکنے کے لئے آب و ہوا کے لچکدار صحت کے نظام کے ضروری اقدامات کو ہدف بنانے اور نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ صحت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں کمی مخصوص تحقیق اور منصوبوں کے ذریعے کی جاسکتی ہے جس کے لئے پاکستان کو سفارتکاری کے ذریعے عالمی فنڈز کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان این ڈی سیز اور این سیز کی شکل میں عالمی مواصلات میں ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرتا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی اور صحت پر کچھ بنیادی بات چیت ہوتی ہے تاہم بین الاقوامی مکالمے میں ان کے اہم کردار کے باوجود یہ رپورٹیں براہ راست قابل عمل اقدامات میں تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اہداف پورا کرنے کی صلاحیت کا فقدان اور امیر ممالک کی جانب سے فنڈز کی عدم تقسیم ہے‘پاکستان کو موسمیاتی لچک دار اور کم کاربن والے صحت کے نظام کی طرف مشروط اقدامات کا انتخاب کرنا چاہئے جو اعلامیے میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق ہو اور جو پاکستان کے عزم کو اجاگر کرتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی اور صحت سے مناسب طریقے سے نمٹنے کے لئے عملی اقدامات اور قابل عمل اقدامات کو شامل کرنا ہوگا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو جوائنٹ وینچر قائم کرنا چاہئے جس میں صوبائی اور وفاقی سطح پر مضبوط کوآرڈی نیشن شامل ہو جس میں شریک اداروں کے اعلیٰ حکام کی حمایت حاصل ہو‘ اِن اسٹیک ہولڈرز میں موسمیاتی تبدیلی ماحولیات اور صحت کی وزارتیں صحت کی تنظیمیں غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) صحت عامہ کی یونیورسٹیاں اور سرکاری اور نجی شعبے کے صحت کے ادارے شامل ہیں۔ اِن اداروں کو شواہد پر مبنی اقدامات کے ذریعے ایک ایسا ماحول تخلیق کرنے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا جس میں موسمیاتی تبدیلی اور صحت پر جامع تحقیق شامل ہو جس میں شدید موسمی واقعات ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماریوں ٹراپیکل بیماریوں غذائی قلت غذائی عدم تحفظ ہوا کے معیار کے مسائل اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے صحت پر پڑنے والے اثرات شامل ہوں۔ کینیڈا کے سک کڈز ہسپتال کے ڈائریکٹر آف ریسرچ ڈاکٹر ذوالفقار اے بھٹہ کا کہنا ہے کہ سی او پی اٹھائیس میں صحت کے پہلے دن کے طور پر یہ اجلاس ہماری موجودہ آبادی کی سطح پر موافقت کی حکمت عملیوں میں آب و ہوا کے اقدامات کو مربوط کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں کلیدی تھا لیکن واضح طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے! اگرچہ سی او پی 28 کا جاری کردہ صحت کا اعلامیہ ایک ایسے مستقبل کی کا روشن راستہ ہے جہاں صحت اور آب و ہوا کے اقدامات ایک دوسرے سے مربوط ہیں لیکن اس ویژن کی تکمیل کا دارومدار مستقل کوششوں (عالمی اتحاد) پر ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر شوکت علی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)