کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت تعلقات کا امتحان اور اپنی ذات میں اس قدر گہرا ہے کہ ایک چھوٹا سا واقعہ بھی دو ہمسایہ جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے مثال کے طور پر گزشتہ سال دسمبر کی بات ہے جب ضلع پونچھ میں بھارتی فورسز کی جانب سے محاصرے اور تلاشی کی کاروائی کے دوران تین کشمیریوں کی وحشیانہ حراست میں ہلاکت ہوئی اور پاکستان نے اِس کی شدید مذمت کی تھی۔ اِسی طرح تیرہ جنوری کو بھارت نے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کے آزاد کشمیر کے دورے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس دورے سے بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں بھی بھارت نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے دورہ گلگت بلتستان پر اسی وجہ سے اعتراض کیا تھا۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر ابھرے 75سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن مسئلہ کشمیر نے دونوں فریقوں کو خوشگوار یا ہمسایہ تعلقات قائم کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ دونوں نے تین مکمل جنگیں لڑی ہیں اور بے شمار جھڑپیں تو ہوتی ہی رہی ہیں بار بار ہونے والے سفارتی جھگڑے بھی اب معمول کی بات بن چکے ہیں چونکہ دونوں ممالک کشمیر پر اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں خاص طور پر سال دوہزارانیس میں کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے بھارت کے یکطرفہ اقدام اور پاکستان کے اگست دو ہزار انیس سے پہلے والی مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بحال کرنے کے مسلسل مطالبے کے بعد سے صورتحال کشیدہ ہے اور اِس بات کا امکان بھی بہت ہی کم ہے کہ کوئی بھی فریق جلد گھٹنے ٹیک دے گا۔ ایک مثالی منظر نامے میں اگر مسئلہ کشمیر کو صرف عارضی طور پر ملتوی کر دیا جاتا ہے تو یہ تصور کرنا بے وقوفی ہوگی کہ دونوں ممالک کو رواں برس بڑی کامیابی حاصل ہوگی۔رواں برس پاکستان اور بھارت عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بھارت کی سیاست کا انحصار پاکستان مخالف بیانیے پر ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بظاہر ہندو اکثریتی رائے دہندگان کو راغب کرنے ‘رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور رائے دہندگان کے فیصلوں کو ممکنہ طور پر متاثر کرنے کے لئے پہلے ہی پاکستان مخالف بیانات پر مبنی گمراہ کن تصاویر اور من گھڑت کہانیاں پھیلا رہی ہے۔ پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ نے بھی اپنی کتابوں میں بے بنیاد دعوے کرتے ہوئے الگ سے تنازعہ کھڑا کر رکھا ہے اگرچہ پلوامہ حملے کے بعد جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بھارت کی کہانی کو پاکستان نے مسترد کر دیا تھا لیکن مذکورہ کتاب نے بی جے پی کے سخت گیر رہنماو ں کو انتخابی مہم کے دوران اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی گولہ بارود فراہم کیا ہے۔ اِس کے برعکس پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت کے ساتھ تعلقات کو متوازن اور مستحکم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ عام انتخابات کے بعد کا منظر نامہ مختلف نہیں ہوگا۔ پاکستان کی نومنتخب حکومت کو بے مثال معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں بے تحاشہ افراط زر اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل درآمد جیسی مشکلات شامل ہیں۔ نئے آنے والوں کے سامنے ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کا چیلنج ہوگا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اقتصادی محاذ پر اچھی پوزیشن رکھنے کی وجہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ دیگر ممالک کی سرزمین پر اپنے مبینہ دشمنوں کے پیچھے چلنے والی ایک سروگیٹ ریاست ہونے والی داغدار بین الاقوامی امیج کو بحال کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ علاقائی سطح پر بھارت چین کے ساتھ اختلافات کو ترجیح دے گا جس کےساتھ اس کی سالانہ تجارت کھربوں ڈالر ہے اور مشرق کی طرف دیکھو کی پالیسی کو بھی ممکنہ طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔ بھارت کی معاشی تحریک میں پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی کیونکہ عالمی تجارت کا توازن پہلے ہی بھارت کے حق میں ہے۔ دوطرفہ تعلقات معمول پر لانے کے لئے اگر کوئی سفارتی کوشش کھلی یا خفیہ طور پر کی جاتی تو اِس کے نتائج حیران کن ہوتے کیونکہ ایسے شواہد موجود ہیں جن میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کے اندر دہشت گرد کاروائیاں کیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر امینہ تنویر کائرہ۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
سیکرٹری خارجہ ایم سائرس سجاد کا کہنا ہے کہ بھارت کرائے کے قاتلوں کا عالمی نیٹ ورک بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور اِسی نیٹ ورک نے گزشتہ سال امریکہ اور کینیڈا میں بھی بھارت مخالف رہنماو ں کو قتل کیا۔ بیک ڈور سفارتی دباو کی عدم موجودگی عوام سے عوام کے درمیان محدود رابطے ثقافتی تبادلوں میں کمی اور کھیلوں کے دو طرفہ مقابلوں میں بھی کمی کی وجہ سے دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس فریقین کو ایک دوسرے کا ہمسایہ ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے اور دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے واپسی ممکن نہیں رہی۔ ضرورت امن کی ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان نے ہمیشہ پہل کی ہے کہ جس کی وجہ سے نفرت امید کی جگہ لے رہی ہے۔ بھارتی فلم سازوں کی جانب سے پاکستان کو ہمیشہ دشمن کے طور پر پیش کرنے سے پاک بھارت اختلافات اور رائے عامہ مزید خراب ہو رہی ہے۔ مذکورہ جملہ منفی اشاروں کے ساتھ بظاہر امن کا قیام ناممکن لگتا ہے۔ اس کے باوجود دونوں علاقائی طاقتوں کے پاس کچھ ایسے مشترک کام کاج بھی ہیں جن کے ذریعے یہ ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں۔ جن میں مشترکہ کوشش آب و ہوا کی تبدیلی جیسے اقدامات اچھا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ دونوں ریاستیں روزمرہ کی زندگی اور سماجی و اقتصادی استحکام کے لئے بڑے پیمانے پر سندھ طاس معاہدے پر انحصار کرتی ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی وہ پانی کی شدید قلت بار بار آنے والے سیلاب غذائی عدم تحفظ اور توانائی کی کمی سے بھی نبرد آزما ہیں۔ سیاسی کمزوریاں اسلام آباد اور نئی دہلی کی حکومتوں کو سال دوہزارچوبیس میں بات چیت شروع کرنے کی اجازت نہیں دے سکتیں لیکن ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے باہمی کوششیں تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے قابل عمل قدم(مثبت تحریک) ثابت ہوسکتی ہیں۔