سی پیک: پائیدار ترقی‘ ارتقائی مراحل

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جو کہ عوامی جمہوریہ چین کے ”بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)“ کا حصہ ہے درحقیقت ایک انقلابی ترقیاتی حکمت عملی ہے جو مسلسل ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک کو مزید وسعت دیتے ہوئے اِس کے تحت نئے ترقیاتی اقدامات پر عمل درآمد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اِسے ’سی پیک 2.0‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ پہلی مشق سے زیادہ جدید اور وسعت تصور ہے۔ ’سی پیک ٹو پوائنٹ زیرو‘ خالصتاً بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر مرکوز نقطہ نظر ہے جو پہلے سے زیادہ جامع ہے۔ یہ ترقیاتی ماڈل ٹیکنالوجی‘ ثقافت اور کمیونٹی کے باہمی میل جول پر زور دیتا ہے‘ جو مستقبل میں بین الاقوامی تعاون کی مثال کے طور پر تذکرہ کیا جائے گا۔ سی پیک کا افتتاحی مرحلہ جسے اکثر ’ہارڈ وئر فیز‘ کہا جاتا ہے‘ چین اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عرصے کے دوران‘ سی پیک راہداری نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری دیکھی۔ مالی وسائل کی اس آمد نے بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر توانائی کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی‘ جس میں کوئلے کے پاور پلانٹس کا قیام بھی شامل ہے اور اِس نے پاکستان کو درپیش شدید توانائی بحران سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہارڈ وئر مرحلے کی سب سے قابل ذکر کامیابی توانائی کی قلت میں خاطر خواہ کمی تھی۔ پاکستان جو کہ بجلی کی شدید کمی سے متاثر تھا‘ نے توانائی کی فراہمی میں اضافے کے ساتھ توانائی کی ترسیل و انتظامات میں بھی قابل ذکر تبدیلی کا مشاہدہ کیا تاہم یہ مرحلہ مشکلات اور چیلنجوں کے بغیر نہیں تھا۔ بجلی کی صلاحیت میں تیزی سے توسیع اور طویل مدتی بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کی وجہ سے توانائی کے شعبے میں مالی عدم استحکام پیدا ہوا جو مربوط منصوبہ بندی اور ترقی کے نقطہ نظر کی اہم ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ مالیاتی تناؤ اس وقت واضح ہو 
گیا جب ملک نے بڑے پیمانے پر غیرملکی سرمایہ کاری کے انتظام کی پیچیدگیوں کا سامنا کیا۔ اس وقت ترقی کی پائیداری سے متعلق خدشات سامنے آئے‘ خاص طور پر کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا۔ مذکورہ تجربات نے ترقی کے لئے زیادہ جامع نقطہ نظر کی اہمیت کو اجاگر کیا‘ جو نہ صرف بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کرتا ہے بلکہ معاشی‘ ماحولیاتی اور معاشرتی استحکام کا ذریعہ بھی ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کرنے کے بعد ’سی پیک 2.0‘ نے ’سافٹ وئر آف ڈویلپمنٹ‘ جیسے نقطہ نظر کی طرف مثالی تبدیلی متعارف کرائی۔ اس مرحلے میں لوگوں‘ ثقافتوں اور برادریوں کے درمیان گہرے یعنی زیادہ بامعنی رابطوں کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔ یہ ترقی کے عمل میں انسانی اور ثقافتی جہتوں کو ضم کرنے کی طرف اہم پیشرفت ہے‘ جس سے چین اور پاکستان کے تعاون کو زیادہ باریک اور جامع نقطہ نظر سے جامع بنایا گیا ہے۔ سی پیک 2.0‘ دونوں ممالک کے درمیان ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں وفود کے تبادلوں اور کمیونٹی کی شمولیت کے ذریعے مضبوط چین پاکستان تعلقات کی تعمیر کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان میں معیار زندگی بہتر بنانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے بنیادی ڈھانچے سے عوام پر مرکوز ترقی کی طرف سوچ اور عمل کو منتقل کرنے کا باعث رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اور مہارت کی منتقلی کے ذریعے مقامی پیداوار میں اضافے کا باعث 
بھی رہا ہے اور اِسی کے تحت پاکستان میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈ) بنائے گئے ہیں جن میں چینی مینوفیکچرنگ کو ضم کیا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل تبدیلی پر زور دیتے ہوئے‘ سی پیک 2.0 ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور سمارٹ شہروں کی ترقی‘ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت اور گورننس کو فروغ دینے پر توانائیاں اور وسائل مرکوز کئے ہوئے ہے۔ یہ مرحلہ پائیداری کے ساتھ قابل تجدید توانائی اور شہری منصوبہ بندی کے علاوہ سرسبز (زرعی) ترقی پر بھی زور دیتا ہے۔ مزید برآں یہ سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں علوم کے تبادلے اور تعاون کے فروغ کا باعث ہے اور جدت کے مشترک و ترقیاتی عمل میں بنیاد جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ ترقی کے اِن ’سافٹ وئر (مراحل اور عناصر) کو یکجا کرکے ’سی پیک 2.0‘ کا مجموعی مقصد پاکستان کے لئے زیادہ پائیدار‘ جامع‘ مساوی اور ارتقائی ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے جس سے بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھی نئے معیارات قائم ہوئے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ توانائی کی بچت کے شعبے میں پاکستان چین کی مہارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان میں مختلف شعبوں میں چین کے تجربات سے توانائی کا ضیاع کم کرنے اور مجموعی کارکردگی بڑھانے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اِسی طرح پاکستان چین میں بننے والی الیکٹرک وہیکلز (ای ویز) مینوفیکچررز کو ’ایس ای زیڈز‘ کا حصہ بنا سکتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے پاکستان میں بنائے جانے سے نقل و حمل اور ایندھن کی مد میں خاطرخواہ بچت ہوسکتی ہے‘ جو ماہانہ تیس کروڑ ڈالر یا سالانہ ساڑھے تین ارب ڈالر سے زیادہ ہوگی۔ اگر پاکستان یہ بچت حاصل کر لیتا ہے تو اِس سے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور اہداف حاصل ہونے کے لئے علاوہ اہم معاشی و ماحولیاتی فوائد حاصل کئے جا سکیں گے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خالد وحید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)