پاکستان کو مختلف اقسام اور نوعیت کے مسائل و مشکلات پر مبنی چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں معاشی رکاوٹوں سے لے کر سکیورٹی خدشات شامل ہیں۔ اِس صورتحال میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا ہے جن کے ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہونے والا ہے۔ وقت ہے کہ ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی رہنما جماعتی تقسیم سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں اجتماعی بھلائی کے بارے میں سوچے اور اپنے اقدامات میں اِسے ترجیح دے۔ ووٹ ڈالے جانے اور آوازیں سننے کے بعد اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کی فلاح و بہبود انفرادی ترجیحات (ایجنڈے) سے بالاتر ہے۔ ہم سب کو مختلف شعبوں میں جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سرفہرست معیشت کی بحالی اور امن و امان شامل ہیں جن پر قابو پانے کے لئے قومی متحدہ محاذ قائم ہونا چاہئے جو مشترکہ کوشش کے ذریعے متنوع آوازوں کو سنے اور متنوع آوازوں کا احترام کیا جائے اور فکر و عمل کی توانائیوں کو تعمیری حل کی طرف موڑا جائے۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو نیا راستہ اختیار کرنا
ہوگا۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو محاذ آرائی کی جگہ بات چیت کرنی ہو گی۔ اس نئے سیاسی باب میں سمجھوتے کو ہٹ دھرمی پر فتح حاصل کرنے کا موقع دیں۔ آئیے تبدیلی کے لئے ایک ایسی پارلیمنٹ تشکیل دیں جہاں متنوع ذہنوں کی اجتماعی ذہانت مل کر پالیسیاں وضع ہوں جو پاکستان کی حفاظت کریں اور ہر شہری کو اس کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر اوپر اٹھائیں۔ دعوت ہے کہ تبدیلی کے لئے ایک ایسی قوم کی تصویر بنائیں جو اختلافات کی اہمیت کو تسلیم کرے۔ ایسی بحث کی جائے جو پرامن اور جمہوری طریقوں سے قومی مسائل کا حل نکالے۔ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرکے اِس تقسیم کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ہر بات چیت میں تصادم پر مکالمے کو ترجیح دے کر تقسیم کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ باہمی احترام کی فضا کو فروغ دے کر موجودہ تقسیم کو دور کیا جا سکتا ہے۔ خوشحال اور ہم آہنگ پاکستان کے لئے مشترکہ کوششیں پائی جانے والی تقسیم کو دور کر سکتی ہےں۔ تنوع کو گلے لگا کر تقسیم کو دور کرنے کے لئے گورننس کی تمام سطحوں پر شفافیت اور احتساب کو فروغ دینا چاہئے۔سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت اور تبادلہ خیال (انٹرا پارٹی ڈائیلاگ)مستقل بنیادوں پر ہونا چاہئے تاکہ قومی سطح پر پائی جانے والی تقسیم دور ہو سکے۔ بین الجماعتی تعاون سے اِس تقسیم کو بڑی حد تک دور کیا جا سکتا ہے۔ آئیے تبدیلی کے لئے پارلیمنٹ کو میدان جنگ کے طور پر نہیں بلکہ معیشت اور سلامتی جیسے اہم معاملات کے لئے استعمال کریں اور مشترکہ کمیٹیاں تشکیل دے کر قومی ترقی کے عمل کو شروع کریں۔ آئیے تبدیلی کے لئے مسائل کے مشترکہ حل تلاش کریں۔ آئیے قومی مقصد اور مقصدیت جیسے نکات کا احساس کریں اور اختلاف برائے اختلاف کی بجائے اتفاق رائے کو فروغ دیں۔ آئیے تبدیلی کے لئے سچائی اور مصالحت کے اقدامات قائم کریں۔ آئیے تبدیلی کے لئے ماضی کی شکایات کو دور کریں اور مسائل کے حل کی راہ ہموار کریں۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو مثال قائم کرنی چاہئے۔ اب ہر سیاسی
جماعت اور ہر رہنما کو سیاست کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو جماعتی مفادات پر قوم کے مفادات کو ترجیح دینی چاہئے۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھنا ہوگا۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو زیتون کی شاخیں پھیلانی ہوں گی۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو قومی تعمیروترقی کے لئے مکالمے میں شامل ہونا چاہئے جس کا مقصد ملک کو درپیش بے شمار چیلنجوں کا منصفانہ حل تلاش کرنا ہو۔توجہ طلب ہے کہ پاکستان ایک بار پھر اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ جی ہاں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کئے جانے والے قومی حکومت کے انتخاب سے سمت اور راستے کا تعین ہو جائے گا اور اِس صورت میں سیاسی تقسیم نہیں ہونی چاہئے۔ کیا یہ ایک ایسا راستہ ہو گا جس پر اختلافات کے ساتھ سفر کیا جائے گا؟ کیا یہ ایسا راستہ ہو گا جس پر جمود طاری ہو؟ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو اتحاد کے ذریعے نیا راستہ روشن کرنا ہوگا۔ اب ہر سیاسی جماعت اور ہر رہنما کو قومی مفاد اور قومی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مفاہمت کرنی ہوگی۔ آئیے قومی تقسیم کو قومی اتحاد سے بدل دیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)